بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو قطعی جنتی کہنےکا حکم/ اگر تمام صحابہ جنتی ہیں تواحادیث میں آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض صحابہ کے بارے میں یہ بات کہنے سے منع کیوں فرمایا ؟


سوال

 1: کسی فوت شدہ کے بارے میں یہ یقین سے کہنا وہ شخص جنتی ہے ، کہ اس کا دل صاف تھا بہت اچھا تھا نماز پڑھتا تھا ، یہ کہنا درست ہے ؟

 2: کیا تمام صحابہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنھم اجمعین کو جنتی کہہ سکتے ہیں ،محلِ نظر وہ حدیث ہے جس میں صحابہ نے کسی صحابی پر جنتی ہونے کا  کہا تو آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم نے منع فرمایا۔

جواب

فوت شدہ شخص کے اچھے اوصاف کا تذکرہ کرنا امرِ محمود ہے، اور اس کے انجام کے بارے میں اچھی امید رکھنا بھی درست ہے،البتہ کسی بھی شخص کے انجامِ خیر یا انجام ِ بد کا یقینی فیصلہ قیامت کے دن ہوگا،یہ غیب کی خبروں میں سے ہے اور بغیر علم کے غیب کی خبر دینا انتہائی جرات کا کام ہے  اس میں ایک گونہ عالم الغیب ہونے کا دعوی ہے، لہذا یقینی طور پرفوت ہو  جانے والے کو  جنتی کہنا جائز نہیں  ۔

قرآن كريم ميں ہے:

"وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ." ﴿الإسراء: ٣٦﴾

"اور جس بات كي تجھ کو تحقیق نہ ہو اس پر عمل در آمد مت کرو۔"(بیان القرآن)

ہاں جن لوگوں کے متعلق اللہ تعالی نے اپنے کلام میں یا پیغبر علیہ الصلوۃ و السلام کے واسطے سے جنتی ہونے کی  خبر دی ہے وہ یقیناً جنتی ہیں مثلاً  صحابہ کرام کی جماعت، ان کے جنتی ہونے کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے۔

 2۔اللہ تعالیٰ  نےتمام صحابہ کرام سے  مغفرت اور جنت کا وعدہ کیا ہے، اور ان کو اپنی رضامندی کا پروانہ دنیا ہی میں عطا فرمایا، تمام صحابہ کرام جنتی ہیں، قرآن  کریم نے اس کی ضمانت دی ہے کہ اگر کسی صحابی سے سے بتقاضائے بشریت کوئی گناہ سرز دہوبھی جائے تو توبہ کی توفیق اسے ملے گی یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت و نصرت اور دین کی خدماتِ عظیمہ اور ان کی بے شمار حسنات کی وجہ سے اللہ تعالی ان کو معاف کردے گا ۔ (مستفاد از: معارف القرآن: 299/8)

معلوم ہوا کہ تمام صحابہ جنتی ہیں،اور جن احادیث میں   آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر انکار فرمایا،مثلاً حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ایک عورت نے کہا : هنيئًا لك أبا السائب الجنّة،تو آپ علیہ الصلوۃ  والسلام نے اس جملہ  پر انکار فرمایا، اس  کی اور اس طرح کے دوسرے مقامات کی شارحین نے  متعددتوجیہات بیان کی ہیں۔

1۔قطعی جنتی کہنے میں سوء ادب کا پہلو تھا،کہ ایک غیبی معاملے پر حکم لگانا ہے۔

2۔جن احادیث میں انکار آیا ہےوہ منسوخ ہیں، ناسخ وہ آیت ہے جس میں تمام صحابہ سے جنت کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔

3۔مجمل طور پر یہ کہنا درست ہے کہ تمام صحابہ جنتی ہیں،لیکن شخص معین کے بارے میں قطعی طور پر ایسے کہنا اس لیے درست نہیں کہ  انجام معلوم نہیں،کیونکہ ثبوت ِ صحابیت کے لیے موت کے وقت ایما ن پر قائم رہنا ضروری ہے،ہاں جن صحابہ کے بارے میں فرداً فرداً جنتی ہونے کی بشارت آئی ہے،انہیں بالتخصیص بھی جنتی کہہ سکتے ہیں۔

4۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ کہنے والے نے اعمال کو دیکھ کر جنتی کہا،حالانکہ کوئی شخص اعما ل کی بنیاد پر جنت میں داخل نہیں ہوگا،بلکہ اللہ کے فضل سے جنت میں جائے گا۔ 

قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:

" لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ۭ اُولٰئِكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى . ( الحدید:10)"

ترجمہ:" تم میں سے جنہوں نے (مکہ کی) فتح سے پہلے خرچ کیا، اور لڑائی لڑی، وہ (بعد والوں کے) برابر نہیں ہیں۔ وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے (فتح مکہ کے) بعد خرچ کیا، اور لڑائی لڑی۔ یوں اللہ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے۔"

"مصنف عبد الرزاق" میں ہے:

" [21495] أخبرنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن خارجة بن زيد، قال: كانت أم العلاء الأنصارية تقول: لما قدم المهاجرون المدينة، اقترعت الأنصار على سكنتهم، قالت: فصار لنا عثمان بن مظعون في السكنى، فمرض، فمرضناه، ثم توفي، فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل عليه، فقلت: رحمة الله عليك أبا السائب، فشهادتي أن قد أكرمك الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌وما ‌يدريك ‌أن ‌الله ‌أكرمه؟ " فقالت: لا أدري والله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "أما هو فقد أتاه اليقين من ربه، وإني لأرجو له الخير، والله ما أدري، وأنا رسول الله، ما يفعل بي ولا بكم"، قالت: فوالله لا أزكي بعده أحدا أبدا، قالت: ثم رأيت بعد لعثمان في النوم عينا تجري، فقصصتها على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "ذلك عمله".

(باب اصحاب النبي ،ج:10،ص:276،ط:دار التاصيل)

"الطبقات الكبری" ميں ہے:

"قال: أخبرنا محمد بن إسماعيل بن أبي فُديك عن هشام بن سعد عن زيد بن أسلم قال: توفّي عثمان بن مظعون فسمع رسول الله، صلى الله عليه وسلم، عجوزًا تقول وراء جنازته: هنيئًا لك أبا السائب الجنّة، فقال لها رسول الله، صلى الله عليه وسلم: وما يُدْرِيكِ؟ فقالت: يا رسول الله أبو السائب، قال: والله ما نعلم إلَّا خيرًا. ثمّ قال: بِحَسْبِكِ أن تقولي كان يُحِبّ اللهَ ورسولَه."

(عثمان بن مظعون،ج:3،ص:370،ط:الخانجي)

"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح" میں ہے:

"5340 - (وعن أم العلاء الأنصارية) ، هي من المبايعات، روى عنها خارجة بن زيد بن ثابت وهي أمه، كان رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم - يعودها في مرضها، (قالت: قال رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم -: " والله لا أدري ") ، وفي نسخة (" والله لا أدري ") مكررا، (" وأنا رسول الله ") صلى الله عليه وسلم جملة حالية (" ما يفعل بي ولا بكم ") : مفعول لا أدري، ودخول " لا " لمزيد التأكيد ; ليفيد اشتمال النفي على كل واحد من القبيلين على حده. قال الطيبي رحمه الله: فيه وجوه، أحدها: أن هذا القول منه حين قالت امرأة عثمان بن مظعون لما توفي: هنيئا لك الجنة، زجرا لها على سوء الأدب بالحكم على الغيب، ونظيره قوله لعائشة رضي الله عنها وعن أبيها - حين سمعها تقول: طوبى لهذا عصفور من عصافير الجنة، قلت: لا يخفى أن هذا سبب ورود الحديث، وزمان صدوره، ولا مدخل له إزالة إشكال معناه. وثانيها: أن يكون هذا منسوخا بقوله تعالى: {ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر} [الفتح: 2] كما ذكره ابن عباس في قوله تعالى: {وما أدري ما يفعل بي ولا بكم} [الأحقاف: 9] ، قلت: وفيه أن النسخ على تقدير صحته تأخير الناسخ إنما يكون في الأحكام لا في الأخبار، كما هو مقرر في الاعتبار. وثالثها: أن يكون نفيا للدراية المفصلة دون المجملة، قلت: هذا هو الصحيح. ورابعها: أن يكون مخصوصا بالأمور الدنيوية، من غير نظر إلى سبب ورود الحديث، قلت: وهذا مندرج فيما قبله والحكم بطريق الأعم هو الوجه الأتم، والمراد بالأمور الدنيوية بالنسبة إليه - صلى الله تعالى عليه وسلم - هي الجوع والعطش، والشبع والري، والمرض والصحة، والفقر والغنى، وكذا حال الأمة. وقيل: المعنى: وأخرج من بلدي أم أقتل، كما فعل بالأنبياء قبلي، وأترمون بالحجارة أم يخسف بكم كالكذابين من قبلكم؟ والحاصل أنه يريد نفي علم الغيب عن نفسه، وأنه ليس بمطلع على المكنون".

(باب البكاء والخوف، ج:8،ص:3344،ط:دارالفكر)

"الكوكب الدری  على جامع الترمذی" میں  ہے:

"وفي حديث آخر أن النبي صلى الله عليه وسلم فقد كعبًا فسأل عنه فقالوا: مريض فخرج يمشي حتى أتاه. فلما دخل عليه قال: أبشر يا كعب! فقالت أمه: هنيئًا لك الجنة يا كعب! فقال: من هذه المتألية على الله؟ قال: هي أمي يا رسول الله! قال: وما يدريك يا أم كعب! لعل كعبًا قال ما لا يعنيه، أو منع ما لا يغنيه، ومعناه إنما تتهنأ الجنة لمن لا يحاسب ولا يعاقب، ومن تكلم فيما لا يعنيه حوسب عليه وإن كان مباحًا، فلا تتهنأ له الجنة مع المناقشة في الحساب، فإنه نوع من العذاب، وروى ابن أبي الدنيا وأبو يعلى عن أنس أيضًا قال: استشهد منا رجل يوم أحد فوجد على بطنه صخرة مربوطة من الجوع فمسحت أمه التراب عن وجهه وقالت: هنيئًا لك يا بني الجنة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما يدريك لعله كان يتكلم فيما لا يعنيه، ويمنع ما لا يضره، وقال القارئ أيضًا في أول الحديث: قوله (أو لا تدري) بفتح الواو على أنها عاطفة على محذوف، أي تبشر ولا تدري، أو أتقول هذا ولا تدري ما تقول، أو على أنها للحال، أي الحال أنك لا تدري، وفي نسخة بسكونها وهي رواية، فأو عاطفة على مقدر أيضًا، أي أتدري أنه من أهلها أو لا تدري، والمعنى بأي شيء علمت ذلك، أو كيف دريت، انتهى".

(باب ما جاء في إنذار النبي صلى الله عليه وسلم قومه،ج:3،ص:235،ط: مطبعة ندوة العلماء الهند)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505100237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں