بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی ادارے کو زکوۃ دینے کا طریقہ/ رشتہ دار کو زکوۃ دینے کا حکم


سوال

1:  سنا ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی   کے لیے زکوۃ لینے والے کو مالک بنانا پڑتا ہے تو  معلوم یہ کرنا ہے کہ جو کسی ادارے کو زکوۃ دی جاتی ہے اس کا کیا طریقہ ہو گا ؟

2:   جو صاحب نصاب نہیں، کیا وہ زکوۃ لے سکتا ہے ؟

3: خونی رشتہ داروں میں کس کو زکوۃ ادا نہیں کی جا سکتی ؟

4:  کوئی شخص ہے جس کے پاس ایک تولہ سونا اور چند سو روپے ہیں مختصر یہ کہ وہ صاحب نصاب کی تعریف میں آ گیا،  لیکن بہت کوشش کے باوجود گزارا مشکل سے ہوتا ہے، کیا ایسے افراد کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟  اگر نہیں تو پھر اس کی مدد کیسے کریں جب کہ صاحب نصاب کے پاس بھی زکوۃ کی ادائیگی کے علاوہ گنجائش موجود نہ ہو؟

جواب

1: زکوۃ ایک اہم فریضہ ہے، جس کی ادائیگی کے لیے ضروری ہےکہ اس کو اپنے مصرف پر یعنی مسلمان، غیرسیّد، غریب  جو  صاحبِ نصاب نہ ہو، اس پر بطورِ تملیک (یعنی مستحقِّ زکوۃ کو مالک بناکر)   خرچ کیاجائے،  اور صاحبِ نصاب نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچتا ہو؛ لہذا  جو ادارہ زکات وصول کرتاہے اس کی حیثیت کو دیکھا جائے گا، اگر وہ دینی مدرسہ یا مسلمانوں کا مستند ادارہ ہے جو زکات وصول کرکے مصارف کا لحاظ رکھ کر شرعی احکام کے مطابق زکات صرف کرتاہے، تو ان اداروں کو زکات کی رقم دینا جائز ہے، پھر یہ فرق ہے کہ از روئے فتویٰ مدارس چوں کہ فقراء کی طرف سے زکات وصولی کے وکیل ہیں؛ لہٰذا مدارس میں زکات جمع کراتے ہی زکات ادا ہوجائے گی، البتہ اہلِ مدارس  پر لازم ہوگا کہ وہ مصارف کا لحاظ رکھ کر یہ رقم صرف کریں۔ اور عام ادارے جو زکات وصول کرکے مصرف میں خرچ کرتے ہیں تو انہیں صرف رقم دینے سے زکات ادا نہیں ہوگی، جب تک کہ وہ کسی مستحقِ زکات کو مالکانہ حقوق کے ساتھ ادا نہ کرلیں؛ یہ ادارے زکات دینے والوں کے وکیل تصور کیے جائیں گے۔

اور اگر کوئی ادارہ مسلمانوں کا نہیں ہے، یا وہ زکات کی رقم یقینی طور پر مصرف میں نہیں لگاتا تو اسے زکات نہ دی جائے۔

2:  جو شخص مستحقِّ  زکوۃ (یعنی مسلمان، غیرسید، غریب جو صاحبِ نصاب نہیں ہے) ہے تو اس کو زکوۃ دینا جائز ہے۔

3: وہ خونی رشتہ دار جو اصول میں سے ہو ں (یعنی ماں، باپ، داد، دادی، نانا، نانی وغیرہ) یا فروع میں سے ہوں  (یعنی بیٹا، بیٹی ، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی  وغیرہ)   اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کو زکات دیناجائز نہیں ہے، اس کے علاوہ باقی رشتہ داروں (مثلاً بہن، بھائی  یا ان کی اولاد  اگر وہ مستحقِّ زکوۃ  ہے، تو ان ) کو زکوۃ دینا نہ صرف جائز ہے،  بلکہ افضل بھی ہے۔

4:باقی ایک تولہ سونے پر زکوۃ کا حکم یہ ہے کہ  جب  ایک تولہ سونے کے ساتھ نقد رقم (بنیادی ضرورت سے زائد) بھی ہے، تو کل ملاکر اگر اس کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے یا اس سے زیادہ بنتی ہے، تو  سالانہ ڈھائی فیصد زکات اداکرنا اس پر خود لازم ہے، اور اس کے لیے زکوۃ لینا جائز نہیں ہے، ان کو زکوۃ کی رقم دینے کے بجائے تبرّعاً مالی تعاون کیا جائےجو کہ باعثِ ثواب عمل بھی ہے۔ اگر ایسے شخص کی بیوی یا بالغ اولاد میں سے کوئی مستحقِ زکات  ہو تو اسے زکات کی رقم دی جاسکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسیرها فھي تملیك المال من فقیر مسلم غیر هاشمي ولامولاہ بشرط قطع المنفعة عن المملك من کل وجه لله تعالی هذا في الشرع."

(کتاب الزکوۃ، الباب الاول فی تفسیرالزکوۃ،ج:1 ص:170،ط:مکتبه حقانیه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الزكوة، الباب السابع فى المصارف، ج:1، ص:190، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية."

(كتاب الزكوة، ج:1، ص:189، ط:مكتبه رشيديه) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144209200908

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں