بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی دوسرے طالب علم کا پرچہ حل کرکے اس پر اجرت لینے کا حکم


سوال

اگر ہم کسی دوسرے شخص کا امتحانی پرچہ حل کرتے ہیں، اور دوسرے لوگوں کے امتحان کو حل کرنے کے لیے کچھ پیسے حاصل کرتے ہیں، تو یہ صحیح ہے؟ کیوں کہ ہم اپنی کوششوں کی ادائیگی لے رہے ہیں جو کہ ہم کاغذ کو حل کرتے ہوئے کر رہے ہیں؛ کیوں کہ اب تعلیم کے مقصد کے لیے ایک آن لائن نظام چل رہا ہے تو ہر ایک ایسا کر رہا ہے!

جواب

بصورتِ مسئولہ دوسرے شخص کی جگہ امتحان دینا اور اس کا پرچہ حل کرنا یہ خیانت ہے، اور اسلام میں خیانت کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، اور کسی بھی ناجائز کام کی اجرت بھی ناجائز ہوتی ہے، لہٰذا دوسرے کی جگہ پرچہ حل کرکے اجرت (مزدوری) لینا بھی حرام ہے۔

نیز ملحوظ رہے کہ کسی کے حرام کام کرنے سے وہ  حرام کام حلال نہیں ہوگا، اگر ادارے کو پتا چلے کہ طالب علم دھوکا دہی کا مرتکب ہے تو اسے سند جاری نہیں کی جائے گی۔ 

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"وَلاَيَجُوزُ اسْتِئْجَارُ كَاتِبٍ لِيَكْتُبَ لَهُ غِنَاءً وَنَوْحًا؛ لأَِنَّهُ انْتِفَاعٌ بِمُحَرَّمٍ."

(الإِْجَارَةُ عَلَى الْمَعَاصِي وَالطَّاعَاتِ، ج:1، ص:290، ط:اميرحمزه كتب خانه)

الفقہ الاسلامی میں ہے:

"ولایجوز الاستئجار علی المعاصي کاستئجار الإنسان للعب و اللهو المحرم ... لأنه استئجار علی المعصیة والمعصیة لاتستحق بالعقد."

(شروط صحة الإجارة، ج:5، ص:3817، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144204201178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں