کیا اس ملک میں حنبلی مذہب کی تقليد جائز ہے جہاں لوگوں کی اکثریت حنفی مسلک کی تقليد کرتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں کسی ایک امام کی تقلید کرنا واجب اور تمام مسائل میں انہی امام کے مسلک کے مفتی بہ مسائل کا اتباع کرنالازم ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ بیک وقت چاروں کی تقلید تو ہو نہیں سکتی، کیوں کہ اکثر (فروعی) مسائل میں چاروں ائمہ کرام کا آپس میں اختلاف ہے اور اختلاف کی صورت میں بیک وقت چاروں کے قول پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے ایک کی تقلید اور اقتدا لازم ہے، نیز اگر عام آدمی (جس کے پاس مسائل کے استنباط کی صلاحیت نہ ہو) کو یہ حق دیا جائے کہ جس مسئلے میں جس امام کا قول اچھا لگے اس پر عمل کرے، تو یہ دین پر عمل کے بجائے اپنی خواہشِ نفس پرعمل کرنے والا بن جائےگا اور جس مسئلہ میں جو قول اس کی خواہش کے موافق ہو اس پر عمل کرنے لگ جائے گا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دین دین نہیں رہے گا، بلکہ ایک کھلونا بن جائے گا،لہذا جس جگہ پر حنفی مسلک پر عمل ہو رہا ہو، وہاں علماء اور بزرگانِ دین اور عوام حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، عام آدمی کے لیے وہاں اہلِ علم کی اتباع کرتے ہوئے حنفی مسلک پر عمل کرنا چاہیے، وہاں پر حنبلی مسلک پر عمل کرنا جائز نہیں؛ کیوں کہ حنبلی مسلک کے مطابق شریعتِ مطہرہ کی طرف راہنمائی کرنے والے علماء جب نہیں ہو ں گے تو وہ شخص دین پر عمل نہیں کر سکے گا ۔
فیض القدیر میں ہے:
"ويجب علينا أن نعتقد أن الأئمة الأربعة والسفيانين والأوزاعي وداود الظاهري وإسحاق بن راهويه وسائر الأئمة على هدى ولا التفات لمن تكلم فيهم بما هم بريئون منه والصحيح وفاقا للجمهور أن المصيب في الفروع واحد ولله تعالى فيما حكم عليه أمارة وأن المجتهد كلف بإصابته وأن مخطئه لا يأثم بل يؤجر فمن أصاب فله أجران ومن أخطأ فأجر نعم إن قصر المجتهد أثم اتفاقا وعلى غير المجتهد أن يقلد مذهبا معينا."
(حرف الهمزۃ، ج:1، ص:209، رقم:288، المکتبة التجاریة)
حجۃ اللہ البالغہ میں ہے:
"إن هذه المذاهب الأربعة المدونة المحررۃ قد اجتمعت الأمة، أو من یعتد به منها علی جواز تقلیدها إلی یومنا هذا، وفي ذلک من المصالح مالا یخفی، لا سیما في هذہ الأیام التي قصرت فيها الهمم جدا و أشربت النفوس الهوی، وأعجب کل ذی رأي برأيه."
(حجة اللہ البالغة، ج:1، ص:154، ط: مکتبه حجاز)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101793
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن