بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کریڈٹ کا رڈ کا حکم


سوال

سود کا معاہدہ کرنا حرام ہے،  براہِ  مہربانی  اس بارے میں کوئی دلیل دے دیں اور جیسے کریڈٹ کارڈ میں سود کا معاہدہ آتا ہے تو اس بارے میں بھی رہنمائی فرما دیں کہ کریڈٹ کارڈ میں کیسے سود کا معاہدہ آتا ہے اور یہ کیوں حرام ہے؟ 

جواب

لین دین کرنے کو  ہی عربی میں معاہدہ  اور معاملہ کہتے ہیں۔

قرآنِ مجید میں  جب سود کی حرمت آئی  اس وقت جو سودی معاملات و معاہدات رائج تھے ان میں ایک صورت یہ بھی تھی کہ قرض دینے والا ابتدا سے مطلقًا سود وصول کرنے کی شرط نہیں رکھتا تھا، بلکہ ایک مقررہ وقت تک کسی اضافے کے بغیر قرض دیتا تھا، اگر اس مقررہ مدت تک قرض واپس  نہ کیا جاتا تو اضافی  مہلت کے حساب سے سود میں اضافہ کیا جاتا تھا۔ اس معاملہ کی قرآن مجید میں سخت ممانعت آئی ہے، چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ } [آل عمران:130، 131]

ترجمہ: اے ایمان والو سود مت کھاؤ (یعنی نہ لو اصل سے) کئی حصے زائد (کرکے) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو کہ تم کامیاب ہو، اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔  

(بیان القرآن، سورۂ آل عمران، آیت: 130، 131، جلد: 1، ص: 280، ط: رحمانیہ لاہور)

بالکل اسی طرح کریڈٹ کارڈ لینے والا  شخص کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے بینک اور دیگر اداروں کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر سود ادا کروں گا۔ جس طرح سود کا لینا حرام ہے اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعا ناجائز اور حرام ہے۔ اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا  شخص  لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس  کردے تو بھی معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال نا جائز ہے۔ اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے"۔ [البقرہ۲۷۶]

"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی گواہی دینے والے اور اس کا معاملہ لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی۔"

(سنن ابن ماجه، کتاب التجارۃ، باب التغلیظ في الربا، رقم الحدیث:2277، ج:2، ص:764، ط:داراحیاءالکتب العربیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں