بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 ذو الحجة 1446ھ 12 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

کرکٹ میچوں کے غلط شرائط کے ساتھ منعقد کرنے کا حکم


سوال

  میرا سوال یہ ہے کہ   مروجہ کرکٹ کے میچز جو کہ آج کل مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلے جا رہے ہیں، ان میچز کا انعقاد اور ان میں شرکت شریعتِ اسلامیہ کی نظر میں کیسا ہے؟ اس کھیل کے دوران درج ذیل امور کو مدنظر رکھتے ہوئے (جو کہ عام کھیلوں اور تفریح کے مقابلے میں کہیں زیادہ وقت طلب ہوتے ہیں، ان پر زیادہ اخراجات کیے جاتے ہیں، اللہ کی محبت اور عبادات سے غفلت برتی جاتی ہے، نوجوانوں کی جہاد سے غفلت، قوم پرستی اور عصبیت اپنے عروج پر ہوتی ہے، میدانوں میں بیٹھنے والے مرد و خواتین کا اختلاط، اور وہ بھی کیمرہ اور ٹی وی کے ذریعے عام لوگوں کی نظروں کے سامنے آتا ہے، کفار سے محبت پیدا ہونا ، ان کھلاڑیوں کی نقل و حرکت اختیار کرنے کی خواہش اور ترغیب، چاہے وہ کھلاڑی کافر ہی کیوں نہ ہو، اور کفار کے ساتھ دوستانہ میچز کھیلنا، مثلاً ہندووں کے ساتھ افغانوں کی محبت کا اظہار (جب بھارت اور پاکستان کا میچ ہوتا ہے)، پھر اس کھیل کے ہارنے کے بعد پورے ملک میں غم و افسوس کی کیفیت، اور جیتنے کے بعد خوشی میں غلو، ناجائز میلوں ٹھیلوں کا انعقاد، بے جا اخراجات، میدانوں میں عام طور پر موسیقی اور فحاشی، ٹورنامنٹس میں جیتنے والی ٹیم کو (تمام کھلاڑیوں کے پیسوں سے خریدا گیا کپ) دیا جانا، یہاں تک کہ یہ کھیل ایک وبا بن چکا ہے، جس کے بعد جیتنے کی صورت میں (خواہ آدھی رات ہی کیوں نہ ہو) لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں، پٹاخے پھوڑتے ہیں، شور شرابہ کرتے ہیں وغیرہ۔

اور آخر میں اس سوال کا جواب بھی عنایت فرمائیں  کہ کرکٹ تو سب سے پہلے انگریزوں نے ایجاد کیا، تو کیا اس کھیل کو اپنانا کفار کی مشابہت میں نہیں آئے گا؟ اور میں نے علماء سے یہ بھی سنا ہے کہ جو کام حرام کا سبب بنے، وہ خود بھی حرام ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یہ کھیل اکثر اوقات بین الاقوامی سطح پر رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں بھی کھیلے جاتے ہیں۔ لہٰذا انتہائی ادب و احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ جواب میں صرف اتنا کہنے پر اکتفا نہ کریں کہ "کھیل کے جواز کے لیے تین یا چار شرطیں ہیں، اگر وہ پائی گئیں تو کھیلنا جائز ہے، ورنہ نہیں"، بلکہ آپ خود موجودہ رائج کرکٹ کا جائزہ لیں، اور ہمیں واضح طور پر بتائیں کہ موجودہ شکل میں کرکٹ کھیلنا، یا اسے دیکھنا (خواہ مقامی سطح پر ہو، قومی یا بین الاقوامی سطح پر) شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟  

جواب

صورتِ مسئولہ میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلے جانے والے کرکٹ میچوں کی جو صورت رائج ہو چکی ہے اس صورت میں کرکٹ میچ کھیلنا اور دیکھنا بلاشبہ جائز نہیں ہے، کیونکہ مروجہ کرکٹ کے میچز بہت سے شرعی مفاسد پر مشتمل ہوتے ہیں (جیساکہ بعض مفاسد کی طرف سے سوال میں بھی اشارہ کیا گیا ہے)۔

باقی رہی بات کفار سے مشابہت کی تو چونکہ یہ کھیل صرف کفار کا شعار نہیں رہا بلکہ مسلمانوں میں بھی رائج ہو چکا ہے، لہذا اس میں کفار سے مشابہت والا پہلو باقی نہیں رہا۔

       روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها."

(سورۃ لقمان، ج:11،ص:66، ط:دار الکتب العلمیة)

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاسني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

(قبیل کتاب الرؤیا، ج:4،ص:435، ط:  دارالعلوم کراچی)

 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144610101623

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں