بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو القعدة 1446ھ 24 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کرسمس میں شرکت کرنے اور مبارکباد دینے کا حکم


سوال

اس بار ہمارے محلے میں کچھ لوگوں نے کرسمس منائی ، اور کافی لوگوں کو اس میں شرکت کی دعوت بھی دی، ہمیں بھی دعوت دی گئی تھی، لیکن الحمدللہ ہم نہیں گئے،آپ راہ نمائی فرمائیں کہ عیسائیوں کے کرسمس میں شرکت کرنا یا ان کو اس پرمبارکباد دینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ غیر مسلموں کی مذہبی مجالس میں شرکت کرنا یا خود اس کی تقریب منعقد کرنا  یا انہیں مبارکباد دینا وغیر ہ  شرعاً ممنوع اور ناجائز ہے؛ اس لیے کہ غیر مسلموں کی مذہبی مجالس ان کے مذہبی اعتقادات اور عبادات پر مبنی ہوتی ہیں اور اس  میں ان کے ساتھ شریک ہونا گویا کہ  ان کے مذہبی مجالس کی تعظیم اور ان کے مذہب سے تعلق  کا اظہار ہے، لہذا کسی مسلمان کےلئے کرسمس میں شرکت کرنا یا اسے خود منعقد کرنا یا کسی کو مبارکباد دینا ناجائز اور حرام ہے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لا يجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام بل كفر، وقال أبو حفص الكبير - رحمه الله - لو أن رجلا عبد الله خمسين سنة ثم جاء يوم النيروز، وأهدى لبعض المشركين بيضة يريد به تعظيم ذلك اليوم فقد كفر، وحبط عمله، وقال صاحب الجامع الأصغر إذا أهدى يوم النيروز إلى مسلم آخر، ولم يرد به التعظيم لذلك اليوم، ولكن ما اعتاده بعض الناس لا يكفر، ولكن ينبغي له أن لا يفعل ذلك في ذلك اليوم خاصة، ويفعله قبله أو بعده كي لا يكون تشبها بأولئك القوم، وقد قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «من تشبه بقوم فهو منهم»، وقال في الجامع الأصغر رجل اشترى يوم النيروز شيئا لم يكن يشتريه قبل ذلك إن أراد به تعظيم ذلك اليوم كما يعظمه المشركون كفر، وإن أراد الأكل والشرب والتنعم لا يكفر."

(کتاب الخنثی، مسائل شتٰی، : ج:6، ص:228، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

فیض القدیر میں ہے:

 "(من سود) بفتح السين وفتح الواو المشددة بضبطه أي من كثر سواد قوم بأن ساكنهم وعاشرهم وناصرهم فهو منهم وإن لم يكن من قبيلتهم أو بلدهم (مع قوم فهو منهم."

(حرف المیم، ج: 6، ص:156، ط: المکتبة التجاریة الکبریٰ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں