بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ بنانے والی کمپنی میں کام کرنے کا حکم


سوال

میں سافٹ ویئر انجینئر ہوں، جو سافٹ ویئر بناتا ہے، میرا سوال یہ ہے ،کہ کیا ایسی کمپنی میں کام کرنا حلال ہے، جو آن لائن ادائیگی کے نظام میں کام کرتی ہے، بینکنگ سیکٹر اور تاجروں کو ادائیگی کا حل فراہم کرتی ہے، جس میں ادائیگی کے تمام اختیارات جیسے اے ٹی ایم، ڈیبٹ کارڈ، کریڈٹ کارڈ، قسط کے ذریعے ادائیگی کریں، بعض اوقات مجھ سے کریڈٹ سسٹم میں کام کرنے کو کہا جا سکتا ہے ،اور دوسری بار ڈیبٹ میں مسائل کو چیک کرنے کے لیے، کچھ تبدیلیاں کرنے کے لیے، میں نے یہ سوال دوسرے علماء سے کیا ،انہوں نے کہا کہ جب اچھے اور برے کی آمیزش ہوگی تو ہم خیر پر بھروسہ کریں گے۔ 

جواب

واضح رہےکہ کریڈٹ کارڈبنوانا اور اس کا استعمال درست نہیں ہے، اس لیے اس کی بنیاد سود پر   ہے،سودی معاملہ کرنا یا اس کا معاون بننا جائز نہیں  ہے،اسی طرح کریڈٹ کارڈ کے سسٹم میں کام کرنا بھی شرعاً جائز نہیں۔

ڈیبٹ کارڈ بنوانا اور اس کا استعمال کرنا بذات خودجائز ہے، اس کے حاصل کرنے کے لیے سودی معاہدہ نہیں کرنا پڑتا،لہذا جس طرح ڈیبٹ کارڈ کا استعمال کرنا جائز ہے، اسی طرح ڈیبٹ کارڈ کے مسائل چیک کرنا بھی جائز ہے۔

 اے ٹی ایم کارڈ بنوانا ٹھیک ہے۔

بینکوں کا قسطوں والا معاملہ سودی ہوتا ہے، لہذا اس میں کام کرنا درست نہیں۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے کریڈٹ سسٹم میں کرنا جائز  نہیں ، حرام اور حلال کی آمیزش کی صورت میں حلال  کی آمدنی  حلال اور  حرام کی آمدنی حرام ہوگی، ساری حلال قرار نہیں دی جائے گی،لہذا اس طرح کے مشتبہ معاملے سے اجتناب کیا جائے۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:

"وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى  الْإِثْمِ وَالْعُدْوٰنِۚ وَٱتَّقُوْا اللّٰهَۖ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ." (سورة المائدة، 2)

" ترجمہ:’’اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ سے ڈرا کرو بلاشبہ اللہ سخت سزا دینے والے ہیں۔(بیان القرآن)"

ابن کثیر میں ہے:

"(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإثْمِ وَالْعُدْوَانِ)يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل."

(سورةالمائدۃ، ج: 2، ص: 12، ط: دار طیبة)

بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ میں ہے:

"وبيع العصير ممن يتخذه خمرا، ‌وبيع ‌الأمرد ممن يعصي به، وإجارة البيت ممن يبيع فيه الخمر، أو يتخذها كنيسة أو بيت نار وأمثالها، فكله مكروه تحريما، بشرط أن يعلم به البائع والآجر من دون تصريح به باللسان؛ فإنه إن لم يعلم كان معذورا، وإن علم وصرح كان داخلا في الإعانة المحرمة وإن كان سببا بعيدا، بحيث لا يفضي إلى المعصية على حالته الموجودة، بل يحتاج إلى إحداث صنعة فيه، كبيع الحديد من أهل الفتنة وأمثالها، فتكره تنزيها."

(احکام الودائع المصرفیۃ، ص: 361، ط: دارالقلم)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509100775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں