بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کرا یہ داری کا معاہدہ وقت سے پہلے ختم کرنا


سوال

 کسی نے کراۓ پر دکان وغیرہ دو سال کا معاہدہ کرتے ہوۓ لے  لی اور کچھ پیسے ایڈوانس میں دۓ۔ کچھ دنوں بعد کراۓ دار نے وہ دکان وغیرہ خالی کردی اور کہا کہ میں نے جو پیسے آپ کو  دیے ہیں  وہ واپس  کردو۔ تو  کیا ایسا کرنا صحیح ہے،  جب کہ سامنے والا راضی نہیں ہے یہ عقد توڑنے پر ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں دکان کے مالک اور کرایہ دار نےباہمی رضامندی  دو سال کا معاہدہ کیااور کرایہ دار نے کچھ پیسے ایڈوانس میں دئے تو ایسی صورت میں کرائے دار کو چاہیے کہ اس عقد پرقائم رہے، بلا عذر شرعی یکطرفہ  طورپر کرائے داری کے معاملہ کو  ختم کرنا درست نہیں ، لیکن کرایہ دار اگر وقت سے پہلے د کان خالی کررہا ہے ، اور کسی معقول عذر  کی وجہ سے وقت سے پہلے دکان خالی کررہا ہے تو    دوکان کے مالک کو چاہیے  کہ باہمی رضامندی سے   عقد ختم  کر کے  کر ایہ دار کی ایڈوانس کی مد میں دی ہو ئی  رقم   واپس کر دے اس صورت میں رقم  روکنا درست نہیں،البتہ جتنے دن دکان استعمال کی ہے اتنے روز کا کرایہ دکاندار پر لازم ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحيحة عرية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، فلاتفسخ من غير عذر".وقال شريح: إنها غير لازمة وتفسخ بلا عذر؛ لأنها إباحة المنفعة فأشبهت الإعارة، ولنا أنها تمليك المنفعة بعوض فأشبهت البيع وقال - سبحانه وتعالى-: {أوفوا بالعقود} [المائدة: 1] والفسخ ليس من الإيفاء بالعقد وقال عمر: - رضي الله عنه - " البيع صفقة أو خيار " جعل البيع نوعين: نوعا لا خيار فيه، ونوعا فيه خيار، والإجارة بيع فيجب أن تكون نوعين، نوعا ليس فيه خيار الفسخ، ونوعًا فيه خيار الفسخ؛ ولأنها معاوضة عقدت مطلقة فلاينفرد أحد العاقدين فيها بالفسخ إلا عند العجز عن المضي في موجب العقد من غير تحمل ضرر كالبيع."

(کتاب الاجارۃ ، فصل فی حکم الاجارۃ ،4/ 201،دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو شرط ثلاثة فسكن في مدة الخيار سقط الخيار ولو انهدم المنزل بالسكنى لا ضمان لأنه سكن بحكم الإجارة وأول المدة من وقت سقوط الخيار. كذا في الوجيز للكردري."

(كتاب الإجارة،الباب الخامس في الخيار في الإجارة والشرط فيها4/ 419،ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308101189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں