بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پر دیے گئے مکان پر زکوۃ کا حکم


سوال

میرے پاس ایک گاڑی ہے اور ایک گھر ہے ، گھر میں نے کرایہ پر دیا اور گاڑی روزی کمانے کے لیے کھڑی کی اور میرےپر بھی کچھ ادھار ہے لوگوں کا،  اور میرے بھی پیسے لوگوں پر ادھار ہیں تو مجھ پر زکات ہوسکتی ہے  کہ نہیں؟

جواب

1:  کرائے پر دیےگئے  گھر کی مالیت پر زکات  نہیں ہے،البتہ کرائے کی مد میں حاصل ہونے والی رقم اموالِ زکات میں شامل ہوگی، پس اگر  کرایہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم تنہا یادیگر اموالِ زکات (سونا، چاندی، مالِ تجارت)   کے  ساتھ مل کر قرض کو منہا کرنے کے بعد باقی ماندہ رقم نصابِ  زکات    کو  پہنچ جائے، تو  سالانہ ڈھائی فیصد زکات  کی ادائیگی واجب ہوگی۔

2: زیرِ استعمال گاڑی پر  زکوۃ  نہیں ہے۔ البتہ اگر روزی کمانے سے مراد گاڑی کرایہ پر چلانا ہے، تو حاصل شدہ کرایہ پر مذکورہ تفصیل کے مطابق زکات کے احکام لاگو ہوں گے۔

3: لوگوں کو  دیے گئے ادھار پر زکات کا حکم یہ ہے کہ دیگر اموالِ زکات کی زکات ادا  کرتے وقت مذکورہ ادھار کی زکات بھی ادا  کی جائے، یا ادھار وصول ہونے کے بعد اس کی زکات ادا  کی جائے، تاہم اس صورت میں اگر کئی سال بعد قرض وصول ہو (اور گزشتہ سالوں کی زکات ادا نہ کی ہو)، توگزشتہ سالوں کی زکات بھی ادا کرنی ہوگی۔ اور جو قرضے آپ کے ذمے ہیں انہیں کل مال میں سے منہا کرکے زکات کا حساب کیا جائے گا۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"وَلَوْ فَضَلَ مِنْ النِّصَابَيْنِ أَقَلُّ مِنْ أَرْبَعَةِ مَثَاقِيلَ، وَأَقَلُّ مِنْ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا فَإِنَّهُ تُضَمُّ إحْدَى الزِّيَادَتَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُتِمَّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا أَوْ أَرْبَعَةَ مَثَاقِيلَ ذَهَبًا كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ. وَلَوْ ضَمَّ أَحَدَ النِّصَابَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُؤَدِّيَ كُلَّهُ مِنْ الذَّهَبِ أَوْ مِنْ الْفِضَّةِ لَا بَأْسَ بِهِ لَكِنْ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ التَّقْوِيمُ بِمَا هُوَ أَنْفَعُ لِلْفُقَرَاءِ قَدْرًا وَرَوَاجًا.

الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً مَا كَانَتْ إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا مِنْ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ."

(الفصل الاول والثانى فى زكوة الذهب والفضة والعروض، ج:1، ص:179، ط:ايج ايم سعيد) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144209201827

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں