بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ تمام وارثوں میں تقسیم ہوگا


سوال

میرے والد صاحب کا ایک مکان تھا،جس میں میرے والد،میرے بھائی اپنے بیوی بچوں سمیت،میری چھوٹی بہن اور میں خود رہتا تھا،2010 میں میں سعودی عرب چلا گیا ،کچھ مہینوں بعد میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا، ورثاء میں دو بیٹے اور تین بیٹاں ہیں ،اس کے کچھ ہی عرصے بعد میرے بھائی نے یہ مکان کرایہ پر دے دیا اور اس کا کرایہ بھائی  خود ہی استعمال کرتے تھے ،اور خود  اپنے فیملی کے ساتھ کسی اور جگہ کرایہ پر رہنے لگے اور اس گھر کے کرایہ کے  لیے انہیں کچھ ایڈوانس رقم ادا کرنی تھی؛ اس لیے انہوں نے مجھ  سے  چالیس ہزار  روپے لیےتھے ،ابھی میری فیملی بھی کسی دوسرے گھر میں کرایہ پر رہ رہی ہے،میں سال میں ایک مہینے کے لیے پاکستان آتا ہوں ۔سوال یہ ہے کہ:

1)میں نے جو رقم اپنے بھائی کو بطور تعاون کے جو چالیس ہزار دیئے تھے تو کیا میں اس کی واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہوں؟

2)والد صاحب کے مکان کا جو کرایہ آتا ہے اس میں سارے وارثوں کا حق ہوگا یا صرف بڑے بھائی کا ؟

3) بڑے بھائی نے  والد صاحب کی زندگی میں اور انتقال کے بعد  سب کی اجازت سے  مکان کی تعمیر پر کچھ پیسے لگائے تھے،ان کا مطالبہ ہے کہ جب یہ مکان فروخت ہوگا تو میں نے جو رقم تعمیر پر خرچ کی ہے وہ میں لوں گا ،اس کے بعد جو رقم بچے گی وہ تمام وارثوں میں تقسیم ہو گی ،کیا ان  کا یہ مطالبہ  شرعًا  درست ہے؟

جواب

1)صورتِ  مسئولہ میں سائل نے اپنے  بھائی کو جو  40000 روپے بطور تعاون کے دیے تھے  ،وہ  سائل کی طرف سے تبرع اور احسان ہے اور  سائل مذکورہ رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا ۔

2)مکان کا کرایہ جو اب تک آیا ہے ،وہ تمام ورثاء میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگا۔

3) بھائی  کا  مکان   کی تعمیر پر لگائی گئی رقم کا مطالبہ کرنا شرعًا درست ہے ۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

        "المتبرع ‌لايرجع بما تبرع به على غيره، كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(کتاب المداینات ج:2 /ص:226 /ط:دار المعرفۃ)

درر الحكام شرح مجلۃ الأحكام میں ہے  :

"( المادة 1073 ) ( تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم."

(القواعد الکلیۃ ج:3/ص: 22/ط:دار الکتب العلمیۃ)

 

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا بنى أحد الشركاء لنفسه في الملك المشترك القابل للقسمة بدون إذن الآخرين ثم طلب الآخرون القسمة تقسم فإن أصاب ذلك البناء حصة بانيه فبها، وإن أصابت حصة الآخر فله أن يكلف بانيه هدمه ورفعه) .ليس لأحد الشركاء في عرصة مشتركة أن يحدث بناء أو أن يغرس أشجارا بلا إذن(بدون إذن شريكه) ، هذا التعبير ليس احترازيا بل اتفاقي لأنه إذا بنى أحد الشركاء لنفسه بإذن شريكه فإذا كان بلا بدل فهو عارية وللمعير في أي وقت أراد الرجوع عن عاريته. أما إذا بنى للشركة بدون إذن شريكه فيكون البناء مشتركا والباني متبرعا بمصرفه على البناء وليس له الرجوع على شريكه بحصته من المصرف."

(الکتاب العاشر الشرکات ،الباب الاَول فی بیان شرکۃ الملک ،الفصل الثامن في بیان أحکام القسمة، المادۃ: 1173 ج:3  /ص:180، ط: دار الجیل)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ذكر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - أرض بين رجلين بنى فيها أحدهما فقال الآخر: ارفع عنها بناءك فإنه يقسم الأرض بينهما فما وقع من البناء في نصيب الذي لم يبن فله أن يرفعه أو يرضيه بأداء القيمة لأنه لو رفع يبطل حق الباني في الكل ولو قسم لا يبطل في القدر الذي بنى في ملكه فكانت القسمة أولى كذا في محيط السرخسي."

(الفتاوی الهندیة، کتاب القسمة، باب فی المتفرقات،ج۵،ص۲۳۲،ط:ماجدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں