1۔ایک دوکان ہے جہاں میں ملازم ہوں، اس د کان میں مختلف سیٹ اپ ہے،ایک کپڑے کا،ایک رنگ کا،ایک دوپٹوں پر پیکو کا،دکان کے مالک نے پیکو کا مکمل سیٹ اپ مجھے 80 ہزار روپے کرایہ پر بغیر ایڈوانس کےدے دیا ،پھر مجھ سے ایگریمنٹ کا مطالبہ کیاکہ 30 لاکھ ایڈوانس جمع کراؤ اور کرایہ 40 ہزار دو،مجھے یہ معلوم ہوا کہ ایسا کرنا جائز نہیں،تو میرے پاس جو پیکو کا سیٹ اپ ہے،جس کا میں 80 ہزار روپے کرایہ دیتا ہوں،اس میں دوکان اور مشین دونوں شامل ہیں،اب میں مشین ان کو واپس کرکے 40 ہزار روپے جو کہ مشین کے ہیں وہ کم کرکے صرف جگہ کے 40 ہزار روپے کرایہ ادا کروں تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
2۔کیا وہ مشین میں ان سے خرید سکتا ہوں یا باہر کسی سےخریدنا ضروری ہے؟راہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں د کان میں جوپیکو کا سیٹ اپ ہے اس کا 80 ہزار کرایہ ادا کرنا درست ہے،البتہ دکان دار کاسائل سے ایڈوانس کا ایگریمنٹ کا مطالبہ کرنا کہ 30 لاکھ ایڈوانس جمع کراؤ اور کرایہ 40 ہزار ادا کرتے رہو،یہ شرط درست نہیں کیونکہ ایڈوانس زیادہ جمع کرانے کی صورت میں کرایہ میں کمی کرنا سود کی اقسام میں سے ایک قسم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛ اس لیے کہ ایڈوانس رقم درحقیقت مالکِ کے ذمہ قرض ہوتی ہے اور قرض کے عوض میں کسی قسم کا مشروط نفع اٹھانا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے،اس کے علاوہ اگر سائل دوکاندار کو مشین واپس کرتا ہے اور صرف دکان میں جگہ کا کرایہ 40 ہزار مقرر کرلیتا ہے تو ایسا کرنا جائز ہے۔
2۔مذکورہ مشین سائل چاہے دوکاندار سے خرید لے یا باہرکسی سے ،دونوں صورتیں درست ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام. قال ابن عابدين: (قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به."
(كتاب البيوع، باب القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، 166/5، ط: سعید)
النتف فی الفتاوی میں ہے:
أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون. الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلک (هذا ) القرض لما کان (ذلک) الفعل، فإن ذلک رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه.
(انواع الربا،ج:1،ص:485،ط: دارالفرقان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100897
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن