دو امور کا حل مطلوب ہے:
1:اگر کوئی بندہ مکان یا دکان کرایہ پر لیتا ہے اور کرایہ مثلاً 5ہزار ہے ،لیکن مالکِ مکان یا دکان ایڈوانس میں پانچ لاکھ روپے لیتا ہے،جو کرایہ داری کا معاملہ ختم ہونے پر اس کرایہ دار کو واپس کر ےگا،تو کیا یہ جائز ہے؟
2:اگر مکان لینے والا اس شرط پر ایڈوانس دینے پر راضی ہوجائے کہ مالکِ مکان یادکان اس سے کرایہ کم لےگا،تو کیا یہ جائز ہے؟ مثلاً بیس ہزار کرایہ ہے لیکن جب وہ ایڈوانس لیتا ہے تو مکان کرایہ پر لینے والا اسے کہتاہے کہ ہم اس شرط پر ایڈوانس دیں گے کہ ہم کرایہ بیس ہزار کے بجائے پندرہ ہزار آپ کو دیں گے،تو کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟
1:کرایہ داری کا معاملہ کرتے وقت مالک کا ایڈوانس زرِضمانت (ڈپازٹ) کے طور پرمناسب رقم لینا کہ اگر کرایہ دار نےکرایہ ادا نہ کیا یا کچھ نقصان کیا یا بل وغیرہ ادا نہ کیے تو وہ اس سے وصول کیے جاسکیں ،ایسا کرنا شرعاً جائز ہےاور یہ زرِضمانت ابتداءًامانت اور انتہاءًقرض شمار ہوتی ہے ،نیز یہ رقم اتنی ہی لینی چاہیے جس کا معاشرہ میں تعامل ہو۔
2:یہ زرِضمانت چوں کہ ابتداءً امانت اور انتہاءً قرض ہے،لہذایہ ایڈوانس زرِضمانت یا ڈپازٹ اس شرط پر دینا کہ کرایہ دار ماہانہ کرایہ معروف کرایہ سے کم کرکے ادا کرے گا،تو ایسی شرط لگانا شرعاً جائز نہیں ہے،کیوں کہ یہ قرض پر نفع لینے کی ایک صورت ہے اور قرض پر نفع لینا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
الوسیط فی شرح القانون المدنی میں ہے:
"و قد يودع مبلغ من النقود أو شيئ آخر مما يهلك بالإستعمال و يكون المودع عنده مأذونا له في إستعماله فلا يرده بالذات و لكن يرد مثله ،و هذه هي الوديعة الناقصة و هي تعتبر قرضا."
( عقد الوديعة ، الفصل الأول أركان الوديعة ، الفرع الثاني :المحل و السبب في عقد الوديعة ، الأشياء التي يجوز إيداعها ، ج:7، الجزء الأول ، ص: 698، ط: دار إحياء التراث العربي )
فتاوی شامی میں ہے:
"[مطلب كل قرض جر نفعا حرام].
(قوله: كل قرض جر نفعا حرام) أي ذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرةوإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخيّ لا بأس به ويأتي تمامه."
(كتاب البيوع،باب المرابحة و التولية، فصل في القرض،166/5،ط: سعید)
اور آگے جاکر علامہ شامی اس کی پوری تفصیل اس طرح ذکر کرتے ہیں:
"وفيها شراء الشيء اليسير بثمن غال لحاجة القرض يجوز ويكره وأقره المصنف.
(قوله يجوز ويكره) أي يصح مع الكراهة وهذا لو الشراء بعد القرض لما في الذخيرة، وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، ولكن اشترى المستقرض من المقرض بعد القرض متاعا بثمن غال، فعلى قول الكرخي لا بأس به وقال الخصاف: ما أحب له ذلك وذكر الحلواني أنه حرام، لأنه يقول لو لم أكن اشتريته منه طالبني بالقرض في الحال، ومحمد لم ير بذلك بأسا وقال خواهر زاده: ما نقل عن السلف محمول على ما إذا كانت المنفعة مشروطة وذلك مكروه بلا خلاف.وما ذكره محمد محمول على ما إذا كانت غير مشروطة وذلك غير مكروه بلا خلاف، هذا إذا تقدم الإقراض على البيع، فإن تقدم البيع بأن باع المطلوب منه المعاملة من الطالب ثوبا قيمته عشرون دينارا بأربعين دينارا ثم أقرضه ستين دينارا أخرى، حتى صار له على المستقرض مائة دينار، وحصل للمستقرض ثمانون دينارا ذكر الخصاف أنه جائز وهذا مذهب محمد بن سلمة إمام بلخ وكثير من مشايخ بلخ كانوا يكرهونه، ويقولون إنه قرض جر منفعة إذ لولاه لم يتحمل المستقرض غلاء الثمن ومن المشايخ من قال: يكره لو كانا في مجلس واحد وإلا فلا بأس به لأن المجلس الواحد يجمع الكلمات المتفرقة، فكأنهما وجدا معا فكانت المنفعة مشروطة في القرض وكان شمس الأئمة الحلواني يفتي بقول الخصاف وابن سلمة يقول: هذا ليس بقرض جر منفعة بل هذا بيع جر منفعة وهي القرض اهـ ملخصا وانظر ما سنذكره في الصرف عند قوله وبيع درهم صحيح ودرهمين غلة."
(كتاب البيوع،باب المرابحة والتولية،مطلب كل قرض جر نفعا،167/5،ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144312100771
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن