بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بیٹی کو وراثت میں 1/3حصہ دے سکتے ہیں؟


سوال

کیابیٹی کو وراثت میں1/3حصہ دے سکتے ہیں؟

جواب

ورثاء کے حصص  چوں کہ منصوصی ہیں (یعنی قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں متعین کردیے گئے ہیں)، لہذا اللہ رب العزت نے جس کا جو حق و حصہ مقرر کیا ہے، اس کے مطابق دینا لازم ہے، اس سے کم کرنے کی شرعًا اجازت نہیں، لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر میت کے ورثاء میں صرف ایک بیٹی ہو، بیٹا نہ ہو تو اس صورت میں بیٹی اپنے والد  یا والدہ کے کل ترکہ کے آدھے کی حق دار ہوگی، اور ایک سے زائد بیٹیاں ہونے کی صورت میں وہ کل ترکہ کے  دو تہائی کی حق دار ہوں گی، بیٹی یا بیٹیوں کے  ساتھ میت کا اگر بیٹا بھی ہو تو ایسی صورت میں میت کا ترکہ بیٹے بیٹیوں میں ایک اور آدھے کے تناسب سے تقسیم ہوگا، اس تقسیم میں کسی قسم کے رد و بدل کا شرعًا اختیار کسی کو نہیں، البتہ تقسیم کے بعد اگر کوئی وارث اپنا حصہ اپنی کسی بہن کو منتقل کرنا چاہے تو یہ اس کی جانب سے تحفہ شمار ہوگا۔

مذکورہ ضابطے کے مطابق ایک صورت ایسی بنتی ہے جس میں بیٹی کا حصہ ایک تہائی بنتا ہے،  چناں چہ اگر مرحوم کے ورثاء میں صرف ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہو (مرحوم کے والدین اور بیوہ نہ ہو، اور میت عورت ہونے کی صورت میں شوہر  اور مرحومہ کے والدین زندہ نہ ہوں) تو  مذکورہ ضابطے (یعنی بیٹے کو بیٹی کا دوگنا ملنے کے ضابطے) کے تحت بیٹی کو ایک تہائی اور  بیٹے  کو دو تہائی ترکہ ملے گا۔ لیکن اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں یہ حکم نہیں ہوگا۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ  میں میت  کی بیٹی کو کل ترکہ کا ایک تہائی نہیں دیا جائے گا، بلکہ حسبِ تفصیلِ بالا تقسیم کرنا بقیہ ورثاء پر لازم ہوگا، بصورتِ  دیگر حق تلفی کا گناہ ہوگا، الا یہ کہ بیٹی بالغہ ہو اور وہ اپنا حصہ کم کرکے ایک تہائی ترکے پر راضی ہو، یا اس کا حصہ کم بنتا ہو اور دیگر ورثہ بالغ ہوں اور وہ اسے زیادہ کرکے ایک تہائی دینے پر خوش دلی سے راضی ہوں تو اس کی اجازت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200784

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں