بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانے میں کپورے ملاکر فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟


سوال

کپورے جو آج کل ہوٹلوں میں    کلیجی کے ساتھ   ملاکر پکائیں جاتے ہیں اور لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تو مکروہ اور ناپسندیدہ ہیں، حرام تو نہیں  ہیں اور کہتے ہیں کہ حدیث  میں بھی  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سات چیزوں( بہتا ہواخون ،نر کی پیشاب گاہ ،مادہ کی ،غدور ،پتہ،مثانہ ، کپورے )  کو ناپسند فرماتے تھے اگر یہ حرام ہے تو دلائل کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کپورے کھانے میں ملاکر فروخت کرنے کاکیا حکم  ہے؟

جواب

کپورے کھاناجائز نہیں ہے ، شرعی نصوص میں حیوان کے جن سات اعضاء کے کھانے سے منع کیا گیا ہے ان میں کپورے بھی شامل ہیں ،اس ممانعت کو بعض اہلِ علم حرام سے تعبیرکرتے ہیں اور بعض مکروہ تحریمی سے؛لہذا  نہ ان کا کہاناجائز اور نہ  ہی اس کی فروخت  کرنا جائز ہے۔

المصنف لابن عبد الرزاق میں ہے:

"عن مجاهد قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يكره من الشاة سبعا: الدم، والحيا، والأنثيين، والغدة، والذكر، ‌والمثانة، والمرارة، وكان يستحب من الشاة مقدمها."

(‌‌باب ما يكره من الشاة،ج:4،ص:535،ط:المجلس العلمي- الهند)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"ما يحرم أكله من أجزاء الحيوان المأكول سبعة: الدم المسفوح والذكر والأنثيان والقبل والغدة والمثانة والمرارة بدائع." 

(رد المحتارح:6،ص:311ط:سعيد)

الوجیز فی ایضاح القواعد الفقہیۃ الکلیۃ میں ہے

"كل شيء كره أكله والانتفاع به على وجه من الوجوه فشراؤه وبيعه مكروه، وكل شيء لا بأس بالانتفاع به فلا بأس ببيعه".

(المقدمة السابعة: نشأن القواعد الفقهية وتدوينها وتطورها،ج:1،ص:52،ط:مؤسسة الرسالة العالمية بيروت لبنان) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: كره تحريماً)؛ لما روى الأوزاعي عن واصل بن أبي جميلة عن مجاهد قال: «كره رسول الله صلى الله عليه وسلم من الشاة الذكر والأنثيين والقبل والغدة والمرارة والمثانة والدم»، قال أبو حنيفة: الدم حرام، وأكره الستة، وذلك؛ لقوله عز وجل: {حرمت عليكم الميتة والدم} [المائدة: 3] الآية، فلما تناوله النص قطع بتحريمه، وكره ما سواه، لأنه مما تستخبثه الأنفس، وتكرهه، وهذا المعنى سبب الكراهية؛ لقوله تعالى:{ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157]."

(ردالمحتار،ج:6،ص:749،ط:سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144401100889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں