بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے ائمہ کے لیے اعزازی معاوضہ کاحکم


سوال

سال 2018ءمیں kpk گورنمٹ  نے ائمہ کرام کے لیے ساٹھ ہزار 60000 روپے  اعزازیہ کا اعلان کیاتھا  اور اس  کے لیے انٹری ہوئی تھی ،انٹری  کے عمل میں کبھی کا غذات  جمع کروانے  تھے، کبھی  اکاؤنٹ  نمبر وغیرہ  جمع کروانا تھا،بالآخر تمام عمل مکمل ہوگیا تھا، سال 2020ء میں، میں نے امامت سے استعفی دے دیا، اب حکومتِ ہذا  نے موجود ہ ائمہ کرام کو  جن کی انٹری  سال 2018 ء میں ہوئی تھی اور وہ ابھی بھی امام ہیں، اعزازیہ  دیا ہے ،اور  مجھے بھی  تین مہینوں  کا ایک اعزازی چیک دیا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ اب میں امام نہیں  ہوں، لہذا یہ  رقم میرے  لیے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ا گر جائز نہیں تو کیا موجود  ہ امام کو میں   یہ رقم دے سکتاہوں، جب کہ وہ بھی اس کا اہل نہیں ؛ کیوں کہ سال  2018ء  میں اس کے پاس  شھادۃ العالمیۃ کی سند موجود نہیں تھی ،یا پھر کیا یہ رقم  میں کسی مدرسہ وغیرہ میں جمع  کرواسکتا ہوں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں  اگر حکومت کا ضابطہ یہ ہو کہ سن2018  میں جو شخص  امام تھا اور اس نے اپنے کاغذات جمع کرائے  اس کےلیے حکومت نے  مذکورہ چیک  جا ری کیا،   لیکن  قانونی کاروائی میں تاخیر کی وجہ سے وہ چیک  ابھی تقسیم کیے جارہے ہیں ،اور  چیک کا مستحق ہونے کے لیے ابھی (یعنی چیک ملتے وقت ) امام ہونا شرط نہیں ہے تو ا یسی صورت میں سائل کے لیے وہ چیک لینا جائز ہے، لیکن  اگر چیک کے استحقاق کے لیے حالاً  امام ہو نا بھی شرط ہے تو پھر سائل چوں کہ اب امام نہیں رہاہے تو ایسی صورت میں سائل کے لیے مذکورہ چیک لینا شرعاً جائز نہیں ہوگا،نیز  سائل  کے لیے دوسرے امام کو یہ پیسے  دینا بھی جائز نہیں ہے،  اس لیے سائل  کے  بقول  دوسرا امام بھی حکومت کی شرائط کے مطابق 2018 میں شھادۃ العالمیۃ  کا حامل نہیں تھا۔

اور اگر حکومت نے یہ رقم ائمہ کرام کو ہم نوا بنانے کے لیے جاری کی ہے تو اس رقم کو لینا ہی درست نہیں، اور اکابرین بھی ایسی رقم نہیں لیتے تھے۔ 

سنن کبری للبیہقی  میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلام قال: " ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ."

( ‌‌باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارا، ج:6،ص:166، رقم الحديث :11545، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100611

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں