بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کوئلہ کے پہاڑ میں سرمایہ کاری کرکے نفع حاصل کرنے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں کوئلہ کا پہاڑ ہے، اس کے اندر کوئلہ ہے اور حکومت سے لیز شدہ  ہے، لیکن اس پر بہت خرچہ آتا ہے ؛ اس کے ليے ہمارے قوم کے بڑے (جو سردار کے حکم سے ہے) نے یہ اعلان کیا ہے کہ: قوم میں سے جو بھی شخص اس منصوبے میں ایک لاکھ روپے جمع کروائےگا کوئلہ کے بر آمد ہونے کے صورت میں اس کو خصوصی حصہ ملے گا، وگرنہ نہیں ،جب کہ قوم کی سطح پر عمومی حصہ تو قوم کے ہر ہر فرد کو ملتا ہے، لیکن خصوصی حصے کے لیے ایک لاکھ روپے جمع کروانے ہوں گے، اس میں ایک بات تو یہ ہے کہ اگر کوئلہ نہ نکلا تو یہ لاکھ روپے واپس نہیں ہوں گے ۔ دوسری صورت یہ کہ کوئلہ نکالنے کے بعد یہ منصوبہ 15 سال تک ہوگا اس کا ايگریمنٹ ہوچکا ہے، اس کے بعد پھر مکمل قوم کے حوالہ کرے گا ، اسی طرح کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کے پاس ایک لاکھ روپے موجود نہیں ہوتے، تو وہ قوم سے باہر کسی شخص سے اس شرط پر لیتے ہے کہ اگر کوئلہ نکلا اور نفع آگیا تو اس میں آدھا آپ کو دوں گا یا 30 فیصد  اور اگر نقصان ہوا تو پیسے آپ کے ضائع ہوں گے، آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ:

یہ پہلا والا معاملہ شرعا کیا حکم رکھتا ہے ؟ اور پھر یہ شخص جو کسی اور سے پیسے لیتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ کوئلہ کے پہاڑ پر اس شرط پر سرمایہ کاری کرانا  کہ نفع ہونے کی صورت میں  سرمایہ کار کو  خصوصی حصہ بطورِ منافع ملے گا،اور نقصان ہونے کی  صورت میں اصل سرمایہ بھی ڈوب جاۓ گا، یہ  شرعا ناجائز ہے، البتہ جو شخص جس قدر رقم لگاۓ گا، مثلاً: ایک لاکھ روپے وہ شخص پہاڑ سے  کوئلہ نکلنے کی صورت میںاس قدر رقم ہی واپس لے سکتا ہے،اس زائد نفع کے نام پر نہیں لے سکتا، لہذامذکورہ پہاڑ سے نکلنے والا تمام کوئلہ  مذکورہ پہاڑ کے مالکان یعنی اہل علاقہ  کا ہوگا اور اگر کوئلہ مذکورہ پہاڑ سے نہ نکلا تب بھی قوم کے بڑے یعنی  عمائدین  سرمایہ کار کو اس کے سرمایہ لوٹانے کے پابند ہیں۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں  دونوں معاملات شرعا ًناجائز ہے، یعنی  قوم کے بڑے  حضرات کا یہ کہنا کہ: جو حضرات مذکورہ پہاڑ کو کان کنی  کے قابل بنانے میں سرمایہ کاری کریں گے ،ان کو کوئلہ نکلنے کی صورت میں  خصوصی حصہ ملے گا، یہ صورت ناجائز ہے، اسی  طرح   قوم کے لوگوں کا اس شرط پر  اجنبی لوگوں سے سرمایہ کاری کروانا، کہ منافع حاصل  ہو نے کی صورت میں منافع آدھا ہمارا اور آدھا تمہارا اور نقصان ہونے کی صورت میں تمام نقصان سرمایہ کار کا ، یہ معاملہ بھی شرعا ناجائز ہے۔

البتہ اگر قوم  کے عمائدین کو پہاڑ  کو کان کنی کے  قابل بنانے کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے، تو وہ ضرورت کے بقدر  سرمایہ لوگوں سے بطور قرض لیں، اور اس پہاڑ کو اس قرض کی رقم سے کان کنی کے قابل بناۓ،نیز اس کے بعد پہاڑ سے کوئلہ نکلے یا نہیں  نکلے قوم کے عمائدین بہر حال قرض ادا کرنے کے پابند ہوں گے، نیز کوئلہ نکلنے کی صورت میں تمام کا تمام کوئلہ پہاڑ کےمالکان  یعنی قوم کے ہر ہر فرد کو ملے گا، اور قرض دینے والے لوگوں کو صرف ان کا قرض  واپس ملے گا۔

الدرمع الرد میں ہے:

"(هو) لغة: من الركز أي الإثبات بمعنى المركوز، وشرعا: (مال) مركوز (تحت أرض) أعم (من) كون راكزه الخالق أو المخلوق فلذا قال (معدن خلقي) خلقه الله تعالى (و) من (كنز) أي مال (مدفون) دفنه الكفار لأنه الذي يخمس (وجد مسلم أو ذمي) ولو قنا صغيرا أنثى (معدن نقد و) نحو (حديد) وهو كل جامد ينطبع بالنار ومنه الزئبق، فخرج المائع كنفط وقار وغير المنطبع كمعادن الأحجار (في أرض خراجية أو عشرية) (قوله: فخرج المائع) أي بالتقييد بجامد وقوله وغير المنطبع أي بالتقييد بينطبع فلا يخمس شيء من هذين القسمين وبه ظهر أن المعدن كما في القهستاني وغيره ثلاثة أقسام: منطبع كالذهب والفضة والرصاص والنحاس والحديد.

ومائع كالماء والملح والقير والنفط. وما ليس شيئا منهما كاللؤلؤ والفيروزج والكحل والزاج وغيرها كما في المبسوط والتحفة وغيرهما. . . (قوله: كمعادن الأحجار) كالجص والنورة والجواهر كاليواقيت و الفيروزج و الزمرد فلا شيء فيها بحر."

(كتاب الزكاة، باب زكاة الركاز، 318/2، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع. وحكم شركة العقد صيرورة المعقود عليه وما يستفاد به مشتركا بينهما، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الشركة، الباب الأول في بيان أنواع الشركة وأركانها وشرائطها وأحكامها، الفصل الأول في بيان أنواع الشركة، 301/2، ط: ماجدىة)

وفیہ ایضاً:

"الشركة إذا كانت بالمال لا تجوز عنانا كانت أو مفاوضة إلا إذا كان رأس مالهما من الأثمان التي لا تتعين في عقود المبادلات نحو الدراهم والدنانير، فأما ما يتعين في عقود المبادلات نحو العروض والحيوان فلا تصح الشركة بهما سواء كان ذلك رأس مالهما أو رأس مال أحدهما، كذا في المحيط، ويشترط حضوره عند العقد أو عند الشراء، كذا في خزانة المفتين."

(كتاب الشركة، الباب الأول في بيان أنواع الشركة وأركانها وشرائطها وأحكامها، الفصل الثالث فيما يصح أن يكون رأس المال وما لا يصح، 306/2، ط: ماجدىة)

دررالحکام مع حاشیۃ الشرنبلالی میں ہے:

"(وباقيه لمالكها) أي الأرض (إن ملكت وإلا) أي وإن لم تملك (فللواجد ولا شيء فيه) أي المعدن (إن وجده في داره وفي أرضه روايتان). . . . . (قوله: ولا شيء فيه إن وجده في داره) أي المملوكة له عند أبي حنيفة، فإنه قال لا خمس في الدار والبيت والمنزل والحانوت وقالا يجب الخمس كما في البحر وسواء كان المالك مسلما أو ذميا كما في المحيط (قوله: وفي أرضه روايتان) أي عند أبي حنيفة - رحمه الله - في رواية لا يجب وفي رواية الجامع الصغير يجب والفرق على هذه الرواية بين الأرض والدار أن الأرض لم تملك خالية عن المؤن بل فيها الخراج أو العشر والخمس من المؤن بخلاف الدار، فإنها تملك خالية عنها قالوا لو كان في داره نخلة تغل أكرارا من الثمار لا يجب كما في الفتح."

(كتاب الزكاة، باب الركاز، 185/1، ط: دار إحياء الكتب العربية)

الدرمع الرد میں ہے:

"(وباقيه لمالكها إن ملكت وإلا) كجبل ومفازة (فللواجد، و) المعدن (لا شئ فيه إن وجده في داره) وحانوته (وأرضه) في رواية الاصل،واختارها في الكنز.

والحاصل: أن معدن الأرض المملوكة جميعه للمالك سواء كان هو الواجد أو غيره وهذا رواية الأصل الآتية وفي رواية الجامع يجب فيه الخمس"

(كتاب الزكاة، باب الركاز، 320/2، ط: سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"قال في المحيط كل جهالة تفسد البيع ‌تفسد ‌الإجارة؛ لأن الجهالة المتمكنة في البدل أو المبدل تفضي إلى المنازعة، وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين يفضي إلى المنازعة فيفسد الإجارة، وفي الغياثية الفساد قد يكون لجهالة قدر العمل بأن لا يعين محل العمل، وقد يكون لجهالة قدر المنفعة بأن لا يبين المدة، وقد يكون لجهالة البدل أو المبدل، وقد يكون لشرط فاسد مخالف لمقتضى العقد، فالفاسد يجب فيه أجرة المثل لا يزاد على المسمى إن سمى وإلا فأجر المثل بالغا ما بلغ."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، 19/8، ط: دار الكتاب الإسلامي)

 فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي العتابية: من استقرض فغلت او رخصت فعليه مثل ما قبض، ولا ينظر الى الغلاء او الرخص، كم استقرض حنطة ،فارتفع سعرها و غلا او رخص."

(كتاب البيوع، الفصل الرابع والعشرون في القروض، (المادة:13696) 394/6، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"فيصح استقراض الدراهم والدنانير، وكذا كل ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً".

 (كتاب البيوع،فصل في القرض، 161/5، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502102381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں