بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورٹ میرج کا حکم


سوال

1۔ کورٹ میرج کا شرعًا کیا حکم ہے؟کیا اس سےنکاح منعقد ہوجاتاہے؟

2۔ ایک لڑکے اور ایک  لڑکی نے ایک سال پہلے کورٹ میرج کی تھی ، دونوں بالغ تھے،دونوں نےاپنے اپنے گھر سے پوچھانہیں تھا، سوال یہ ہے کہ اگر اب میں اپنے بیٹے سے اس لڑکی کو طلاق دلوادوں تو شرعا میں گناہ گار ہوں گا، جب کہ ایک ساتھ رہنے پر میاں بیوی دونوں راضی ہیں ۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں  کورٹ میرج اگرشرعی طریقےکے مطابق ایجاب  و قبول کے  ساتھ ہو اور دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی  میں ہو تو اس سے نکاح منعقد ہوجاتاہے،اگرچہ  والدین کی رضامندی کے بغیرکورٹ  میرج شرعاً،عرفاً  اور اخلاقاً نہایت نامناسب عمل ہے۔

تاہم اگر لڑکی عاقلہ بالغہ ہو اور اس نے اپنےاولیا ء  کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کیا  تو اولاد ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کو عدالت سے رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار  ہوتاہے، اور اگر کفو میں نکاح کیا  توپھر اولیاء کو نکاح  فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا  ۔ کفو کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا دین، دیانت، مال ، نسب اور پیشہ میں لڑ کی کے برابر  ہو ، اس سے کم تر  نہ ہو، یہ شرط لڑکی کے  نکاح کےلیے ہے کہ اس کانکاح غیر کفو میں نہ ہو ،لڑکے کے لیے یہ شرط نہیں۔

2۔  اگرسائلہ کے بیٹے  نے مذکورہ  لڑکی سےشرعی گواہوں(دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی  موجودگی میں ایجاب وقبول کرکے کورٹ میں نکاح کیا تھا  تو شرعاً یہ نکاح منعقد ہوگیا تھا ، اب جب کہ   دونوں  راضی ہیں اور لڑکی کے اندر کوئی شرعی یااخلاقی خرابی نہیں ہے تو سائلہ کے لیے شرعا یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے     بیٹے سے بلاوجہ طلاق دلوا  کر میاں بیوی کے درمیان جدائی کرے۔

در مختار میں ہے:

(وينعقد) ... (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر.

 (كتاب النكاح، ج:3 ، ص:9، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"و نظم العلامة الحموي ما تعتبر فيه الكفاءة فقال:

إن الكفاءة في النكاح تكون في ... ست لها بيت بديع قد ضبط نسب وإسلام كذلك حرفة ... حرية وديانة مال فقط."

(كتاب النكاح، ج:3 ، ص: 86، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي)."

(كتاب النكاح، ج:3 ، ص: 55، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لا تنسب إلى الوقاحة."

(كتاب النكاح، ج:3 ، ص: 55، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الروايةولكن للأولياء حق الاعتراض...ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلاينفسخ النكاح بينهما."

(کتاب النکاح ، ج :1 ، ص: 292، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں