بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا ویکسین لگانے کا شرعی حکم


سوال

ویکسین لگانے کے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے ،ویکسین لگانا چاہیے یا نہیں ؟

جواب

ویکسین سے مراد اگر کرونا ویکسین ہے تو ملحوظ رہے  موجودہ حالات میں کرونا وائرس کا جو  انجیکشن مرض سے  بچاؤ کے لیے بطور ویکسین  لگایا جارہا  ہے ، چوں کہ  یہ ویکسین  احتیاط کے طور پر مبینہ بیماری سے بچاؤ اور پیشگی علاج کے طور پر  لگائی  جارہی ہے ، یقینی بیماری  کا علاج مقصود نہیں ؛ اس  لیے اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ  یہ مضر صحت نہیں اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے ، نیز  اس میں کوئی  حرام  یا ناپاک چیز  ملی ہوئی ہونے کا یقین یا ظن غالب نہ ہو تو اس کا لگانا جائز ہے،کوئی شخص شبہ کی بنا پر احتیاط کرے تو دوسری بات ہے۔ اور  اگر حرام اجزاء یا ناپاک چیز ملی ہوئی  ہونے کا یقین یا ظن غالب ہو  تو اس صورت میں پیشگی علاج کے طور پر اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

البتہ اگر  کرونا کے کسی مریض کو بطورِ  دوا  یہ انجیکشن لگایا جائے تو اس صورت میں اگر اس میں حرام اجزاء کی آمیزش کا یقین یا غالب گمان  نہیں تو استعمال جائز ہے،  لیکن اگر حرام کی آمیزش کا قرائن سے معلوم ہوجائے تو یقینی بیماری کی صورت  میں بھی  اس کا استعمال  اس وقت تک جائز نہیں جب تک  مسلمان  ماہر دین دار طبیب یہ نہ  کہہ دے کہ   اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے،  بلکہ یہی حرام اجزاء ملی دوا ضروری ہے  اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے تو مجبوراً بطورِ دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اجزاء ملی انجیکشن  استعمال کی گنجائش ہوگی۔

نیز ویکسین لگانے پر کسی کو مجبور کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"الأصل في الأشياء الإباحة و أن فرض إضراره للبعض لايلزم منه تحريمه على كل أحد، فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي، وليس الاحتياط في الافتراء على الله تعالى بإثبات الحرمة أو الكراهة اللذين لا بد لهما من دليل بل في القول بالإباحة التي هي الأصل."

(کتاب الاشربۃ، ج:6، ص:459، ط:ایج ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"اختلف في التداوي بالمحرم وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان، و عليه الفتوى.

 (قوله: اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.

أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لا يحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل."

(کتاب الطہارۃ، مطلب في التداوي بالمحرم، ج:1، ص:210، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201573

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں