بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کون سا پرفیوم استعمال کرسکتے ہیں؟


سوال

 کون سا پرفیوم  استعمال  کرسکتے  ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ہر وہ پر فیوم جس میں حرام  یا ناپاک اجزاء کی ملاوٹ نہ ہو، اس کو استعمال کرنا شرعًا جائز ہے،  اور  آج کل  الکحل عام طور پر  کیمیکل سے بن رہا ہے، اور وہ پاک ہے، لہذا اگر   پرفیوم میں کیمیکل والا الکحل ، یا پتے ، پھول اور گھاس سے بنایا گیا الکحل ملایا گیا ہو تو اس کا استعمال جائز ہے، اور اگر انگور، کھجور، منقی،گندم  کے شراب سے بنا ہوا ہے، تو اس کا استعمال جائز نہیں ہے، اگر یہ والا الکحل پرفیوم میں ملایا گیا ہے، تو جان بوجھ کر ایسے پرفیوم کا استعمال کرنا جائز نہیں ، اس لیے استعمال سے پہلے دیکھ  لیں کہ کون سا الکحل ملایا گیا ہے، اگر پاک والا ہے تو استعمال کریں،  ورنہ اجتناب کریں۔  

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:

"وبه تبين أن الشرع إنما جاء بإحلال ما هو مستطاب في الطبع لا بما هو مستخبث ولهذا لم يجعل ‌المستخبث في الطبع غذاء اليسر وإنما جعل ما هو مستطاب بلغ في الطيب غايته."

(كتاب الذبائح والصيود،المأكول وغير المأكول من الحيوانات،38/5، ط: سعيد)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع".

(کتاب الاشربة ،حکم الکحول المسکرۃ،ج:408/3،ط:دارالعلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں