بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کی طرف سے کرائی گئی انشورنس کی رقم کا حکم


سوال

میرے بھتیجے کا سعودی عرب میں انتقال ہوا ہے، حکومتِ پاکستان کا یہ طریقہ ہے کہ جو شخص بھی یہاں سے سعودی عرب جاتا ہے تو ایسے لوگوں کے لیے انشورنس یعنی بیمہ پالیسی شرط ہوا کرتی ہے، میرے بھتیجے کا انشورنس بھی اس کی کمپنی والوں نے اپنی طرف سے کرایا ہوا تھا، اس نے خود نہیں کروایا تھا، اس کے پیسوں سے جبری طور پر کمپنی والے پیسے کاٹتے تھے، جبکہ وہ اس پر اپنی زندگی میں بھی راضی نہیں تھا، لیکن اب اس کی وفات کے بعد انشورنس کے پیسہ اس کے اکاؤنٹ میں آگئے ہیں، آیا ان پیسوں کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے مرحوم بھتیجے کی انشورنس چوں کہ اس کی  کمپنی والوں  کی طرف سے جبری تھی اور کمپنی والے خود سے اس کی تنخواہ وغیرہ سے رقم انشورنس کی مد میں کاٹتے تھے، خود مرحوم کا اس میں کوئی اختیار نہیں تھا اور نہ وہ اس پر راضی تھا تو اب اس کی وفات کے بعد اس کے اکاؤنٹ میں انشورنس کے نام سے جتنی بھی رقم آئی ہے، اس سب کا استعمال جائز ہے اور وہ ساری رقم ترکہ کے طور پر اس کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"و أما الذي یرجع  إلی نفس القرض، فهو أن لایکون فیه جر منفعة، فإن کان لم یجز، نحو: ما إذا أقرضه دراهم غلة علی أن یرد علیه صحاحاً أو أقرضه وشرط شرطاً له فیه منفعة، لما روي عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أنه نهی عن قرض جر نفعاً، ولأن الزیادۃ المشروطة تشبه الربا، لأنها فضل لايقابله عوض، والتحرز عن حقیقة الربا وعن شبهة الربا واجب."

( کتاب القرض، فصل شرائط ركن القرض،  ج:7، ص:395، ط:سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

تنخواہ سے کاٹی ہوئی رقم پر سود لینے اور اس پر زکوٰۃ کا حکم!

"(سوال)  سرکاری مستقل  ملازموں کی ماہواری تنخواہ میں سے 1/16 و 1/12 حصہ لازمی طور پر گورنمنٹ وضع کرلیتی ہے پس بقیہ تنخواہ ملازموں کو ملتی ہے وضع شدہ رقم ملازم کے ذاتی حساب میں جمع ہوتی رہتی ہے ہر چھ ماہ یا سال کے  بعد اس  مجموعہ میں اتنی ہی اور رقم اضافہ کردی جاتی ہے جو بونس ( عطیہ) کہلاتی ہے ان دونوں رقموں میں علیحدہ علیحدہ ۵ فیصدی یا کم و بیش شرح سود پر لگا کر جمع کردیا جاتا ہے ہر سال ان رقموں کی تفصیل کی اطلاع ( یعنی وضع شدہ  رقم بونس سود علیحدہ علیحدہ لکھ کر ) ملازم کو بھیجی جاتی ہے۔ ملاز مت ختم کرچکنے کے بعد یا وفات پر کل جمع شدہ رقم ملازم کو یاورثاء کو دیدی جاتی ہے دریافت طلب یہ امر ہے کہ بونس بعد مذکورہ سود( جس کی شرح وغیرہ گورنمنٹ از خود مقرر کرتی ہے ) از روئے شرع شریف ایک مسلم کو لینا جائز ہے یا نہیں یہ ملحوظ خاطر رہے کہ اگر ۵ فیصدی شرح سود کے متعلق شروع سے ہی یادوران ملازمت میں گورنمنٹ کو لکھ  کر دے  دیا جائے کہ  سود نہ لگائیں تو اس کے حساب میں سود نہیں لگا یا جاتا  اور صرف بونس جمع کردیا جاتا ہے۔

(جواب ۱۰۸)   جو رقم  تنخواہ میں سے لازمی طور  پر کاٹ لی جاتی ہے اور جو رقم کہ بونس کے نام سے بڑھائی جاتی ہے اور جو رقم کہ ان دونوں رقموں پر سو دکے نام سے لگائی جاتی ہے ان تینوں رقموں کو لے لینا مسلم ملازمین یا ان کے ورثاء کے لئے جائز ہے اور وصول  ہونے سے پہلے اس مجموعی رقم پر زکوٰۃ   ادا کرنا واجب نہیں بونس   تو عطیہ ہی ہے مگر وہ رقم جو سود کے نام سے لگائی جاتی ہے وہ شرعاً  سود کی حد میں داخل نہیں  وہ بھی عطیہ ہی کا حکم رکھتی ہے۔ محمد کفایت اللہ  کان اللہ لہ دہلی"

(ج:8، ص:96/ 97، کتاب الربوا، تیسرا باب: پراویڈنٹ فنڈ اور بونس اور پنشن، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100476

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں