بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کوئلہ کی کان کو ٹھیکے پر دینا


سوال

 ایک شخص نے کوئلے کی کانیں پانچ سال کے لیے ٹھیکے پر لی ہوئی ہے جس کی اجرت فی ٹن بیس ہزار کے حساب سے مالک کو ادا کرتا ہے باقی سارا خرچہ میرے ذمہ ہے یعنی کھدائی، ڈیزل وغیرہ کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ"عقدِاجارہ"کے ذریعہ کسی چیز کے منافع اور سہولیات کو حاصل کیاجاسکتاہے،کسی چیز کےعین اورذات کو حاصل نہیں کیاجاسکتا لہذا صورت مسئولہ میں کوئلہ کی کان کرائے پر لینا جائز نہیں ہے اس لیے کہ یہاں کوئلہ کے عین کو استعمال میں لاکرفائدہ اٹھایا جارہا ہے  لہذا مذکورہ معاملہ   کرنے  سے اجتناب ضروری ہے۔البتہ اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ کوئلے کی کانوں کا  مالک ٹھیکیدار  کو کوئلہ نکالنے کا ٹھیکہ دے دے اور  اس کی باقاعدہ اجرت طے کرلے اور  کوئلہ نکالنے کے بعد ٹھیکیدار کو اجرت دے دیں ،پھر ٹھیکیدار مالک سے فی ٹن قیمت متعین کر کے کوئلہ خرید لے۔

بدائع  الصنائع میں ہے:

"وأما معنى الإجارة فالإجارة بيع المنفعة لغة ولهذا سماها أهل المدينة بيعا وأرادوا به بيع المنفعة.......وإذا عرف أن الإجارة بيع المنفعة فنخرج عليه بعض المسائل فنقول: لا تجوز إجارة الشجر والكرم للثمر؛ لأن الثمر عين والإجارة بيع المنفعة لا بيع العين، ولا تجوز إجارة الشاة للبنها أو سمنها أو صوفها أو ولدها؛ لأن هذه أعيان فلا تستحق بعقد الإجارة، وكذا إجارة الشاة لترضع جديا أو صبيا لما قلنا، ولا تجوز إجارة ماء في نهر أو بئر أو قناة أو عين لأن الماء عين فإن استأجر القناة والعين، والبئر مع الماء لم يجز أيضا؛ لأن المقصود منه الماء وهو عين، ولا يجوز استئجار الآجام التي فيها الماء للسمك، وغيره من القصب والصيد؛ لأن كل ذلك عين فإن استأجرها مع الماء فهو أفسد وأخبث؛ لأن استئجارها بدون الماء فاسد فكان مع الماء أفسد ولا تجوز إجارة المراعي؛ لأن الكلأ عين فلا تحتمل الإجارة، ولا تجوز إجارة الدراهم، والدنانير ولا تبرهما وكذا تبر النحاس والرصاص ولا استئجار المكيلات والموزونات؛ لأنه لا يمكن الانتفاع إلا بعد استهلاك أعيانها، والداخل تحت الإجارة المنفعة لا العين."

(کتاب الاجارۃ ، فصل فی رکن الاجارۃ و معناها جلد ۴ ص: ۱۷۴ ، ۱۷۵ ط: دارالکتب العلمیة)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406100291

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں