بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

koi کمپنی میں رجسٹرڈ ہوکر کمائی کرنے کا حکم


سوال

انٹرنیٹ پر KOI کے نام سے ایک  کمپنی ہے، اس میں آن لائن لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے، اِس کمپنی کا  کام یہ ہے کہ دنیا بھر میں جو مختلف کمپنیز  اور ایپس ہیں KOI ان سے اس بات کا کانٹریکٹ لیتی ہے کہ ہم آپ کی کمپنی کو لوگوں میں متعارف کروائیں گے اور اس کی تشہیر کریں گے اور آپ کے ڈاؤن لوڈرز بڑھائیں گے، اس کے لیے وہ ان کمپنیز سے پیسہ لیتی ہے، اور پھر لوگوں کو آن لائن بھرتی کرتی ہے اور آن لائن بھرتی کرنے والوں سے بھی وہ کچھ رقم انویسٹمنٹ کے طور پر لیتی ہے، جیسے: سب سے چھوٹی انویسٹمنٹ 6400 روپے کی ہے اور اس کے بعد اس سے بڑی، پھر اس سے بھی بڑی انوسمنٹ کی جاتی ہے، اور سب سے آخر میں 20,000,000 تک کی انویسٹمنٹ ہے، سب سے چھوٹی انویسٹمنٹ میں روزانہ کے چار ٹاسک دیے جاتے ہیں کہ آپ کو چار مختلف ایپس کو ڈاؤن لوڈ کرنا ہے، ایک ایپ کے 50 روپے ملیں گے، تو ایک دن کے 200 روپے بن جاتے ہیں، اس طرح جب آپ کے اکاؤنٹ میں کچھ رقم جمع ہو جائے تو آپ اس کو جب چاہیں نکال سکتے ہیں، اور اس انویسٹمنٹ کی مدت ایک سال ہے ایک سال کے بعد جو رقم آپ نے ڈپازٹ کروائی تھی وہ رقم آپ کو واپس مل جائے گی، اور جو آپ نے منافع کمایا ہوگا وہ آپ کبھی بھی پورے سال میں نکال سکتے ہیں۔

اور کمپنی کے مطابق وہ لوگوں سے انویسٹمنٹ اس لیے لیتی ہیں تاکہ لوگ پوری توجہ سے کام کریں، اور جو کنٹریکٹ انہوں نے دوسری کمپنیز کے ساتھ سائن کیے ہیں اس میں کسی بھی کسی قسم کی رکاوٹ نہ پڑے، KOI کمپنی کے مالکان کا کہنا ہے کہ اگر ہم لوگوں سے انویسٹمنٹ نہ لیں تو لوگ جو مرضی آئے کریں گے اور کمپنی کے رولز کی نافرمانی کریں گے، اس لیے ان سے پیسے لینا ضروری ہوتا ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ لوگ اپنا کام پورے دل سے اور توجہ سے کریں۔

اب اس کمپنی میں رجسٹرڈ ہوکر کمائی جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کمپنی  سے کمانے میں درج ذیل  شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں ،جس کی وجہ سے اس میں رجسٹرڈ ہوکر کمانا جائز نہیں  ہوگا:

1۔کمپنی کا ٹاسک(کام)  مکمل کرنے پر معاوضہ ملنا عقد اجارہ ہے،  لیکن اس کے لیے ابتدائی طور پر 6400  روپے جمع کرانے کی شرط لگانا ناجائز ہے، کیوں کہ اگر یہ رقم شرکت کے طور پر جمع کرائی جاتی ہے تو یہاں پر  شرکت اور اجارہ دونوں جمع ہوجائیں گے، جب کہ شریک کو اجارے پر رکھنا درست نہیں، اور اگر سیکورٹی ڈپازٹ کے طور پر جمع کرائی جاتی ہے تو یہاں املاک نہ ہونے کی وجہ سے سیکورٹی ڈپازٹ کے طور پر رقم جمع کرانے کی شرط  درست نہیں۔

2-  ٹاسک کرنایہ ایک بے مقصد اور بے فائدہ عمل ہے؛ کیوں کہ مسئولہ صورت میں اشیا کی خریداری مقصود نہیں ہوتی، صرف متعدد کمپنیوں کے ڈاؤن لوڈز سے افراد کے ذریعے بڑھانا مطلوب ہوتا ہے، جن کا مقصد اشیاء کی خریداری نہیں ہوتا، پس شریعت میں بے مقصد اور بے فائدہ عمل پر اجارہ درست نہیں ؛ کیوں کہ صحت اجارہ کے لیے معقود علیہ کا منفعت مقصودہ ہونا ضروری ہے۔

3۔   اگر ان اشتہارات میں جان دار کی تصاویر یا خواتین کی تصاویر بھی ہوں تو یہ اور زیادہ شدید گناہ  ہے۔

4۔   عام طور پر اس نوع کی کمپنی سے مقصود  وڈیو ،ایپ،پروڈکٹ  وغیرہ کی تشہیر ہوتی ہے ،تاکہ خریدار / ناظرین کے اعداد و شمار بڑھ جائیں اور  دیگر لوگوں کو راغب کیا جائے حالاں کہ  اس طرح کرنے والے حقیقی خریدار  نہیں ہوتے،کمپنی / ایپ   والے پیسے دے کر جعلی تشہیر کرواتے ہیں جو کہ دھوکے پر مبنی ہے ۔

  مذکورہ کمپنی سے رقم حاصل کرنا چوں کہ شرعاً جائز نہیں، لہذا  اس طرح کی کمپنی  میں رجسٹرڈ ہونا یا اس سے پیسہ کمانا جائز نہیں ۔

مسند امام احمد میں ہے :

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب." 

(‌‌تتمة مسند الأنصار،حديث أبي أمامة الباهلي، ج: 36، صفحہ: 504، رقم الحدیث: 22170، ط:  مؤسسة الرسالة)

شعب الإيمان میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: ‌سئل ‌رسول ‌الله - ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم - ‌أي ‌الكسب ‌أطيب؟ قال: عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور."

(الثالث عشر من شعب الإيمان، ج4، ص434، رقم:1170، ط: مكتبة الرشد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر.

(قوله فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة وهذه لا نظير لها إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لا ينعقد العقد تأمل."

(کتاب الإجارة، ج:6، ص:60، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها أن تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الإجارة ويجري بها التعامل بين الناس؛ لأنه عقد شرع بخلاف القياس لحاجة الناس ولا حاجة فيما لا تعامل فيه للناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها والاستظلال بها؛ لأن هذه منفعة غير مقصودة من الشجر ولو اشترى ثمرة شجرة ثم استأجر الشجرة لتبقية ذلك فيه لم يجز؛ لأنه لا يقصد من الشجر هذا النوع من المنفعة وهو تبقية الثمر عليها فلم تكن منفعة مقصودة عادة وكذا لو استأجر الأرض التي فيها ذلك الشجر يصير مستأجرا باستئجار الأرض، ولا يجوز استئجار الشجر وقال أبو يوسف: إذا استأجر ثيابا ليبسطها ببيت ليزين بها ولا يجلس عليها فالإجارة فاسدة؛ لأن بسط الثياب من غير استعمال ليس منفعة مقصودة عادة وقال عمرو عن محمد في رجل استأجر دابة ليجنبها يتزين بها: فلا أجر عليه؛ لأن قود الدابة للتزين ليس بمنفعة مقصودة ولا يجوز استئجار الدراهم والدنانير ليزين الحانوت، ولا استئجار المسك، والعود وغيرهما من المشمومات للشم؛ لأنه ليس بمنفعة مقصودة ألا ترى أنه لا يعتاد استيفاؤها بعقد الإجارة والله عز وجل الموفق."

)كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، ج:4، ص:192، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية."

)كتاب الإجارة، ج:6، ص:4، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وعلى هذا يخرج ‌الاستئجار ‌على ‌المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح."

)كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، ج:4، ص:189، ط: دار الكتب العلمية)

الموسوعة الفقهية الكويتية ميں هے:

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة."

(إجارة،‌‌ الفصل السابع،‌‌ الفرع الثالث،‌‌ الإجارة على المعاصي والطاعات، ج: 1، ص290،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100408

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں