بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کچھ امور کی وجہ سے شادی میں تاخیرمیں شرعی نقطہ نظر


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام؟ ایک لڑکے کی شادی مثلا مارچ میں ہونے والی ہے اور مارچ میں تبلیغی حضرات کا رائیونڈ میں جوڑ ہے جس کے لئے شادی کو مؤخر کیا جا رہا یے تو کیا یہ جوڑ اتنا اہم ہے کہ اس کے لئے ایک سنت عمل یعنی شادی کو مؤخر کیا جائے جب کہ جوڑ سے قبل اجتماع میں شرکت ہوچکی ہو؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دونوں خاندان کے بڑے مل بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کیں،اگر جوڑ میں شرکت کی وجہ سے شادی مؤخر کی جائے اور اس سے حرج لازم آتا ہو،تو نکاح کو مقدم کرنا بہتر ہے۔

"الدر المختار مع رد المحتار " میں ہے:

"(قوله: سنة مؤكدة في الأصح) وهو محمل القول بالاستحباب وكثيرا ما يتساهل في إطلاق المستحب على السنة وقيل: فرض كفاية، وقيل واجب كفاية وتمامه في الفتح، وقيل واجب عينا ورجحه في النهر كما يأتي قال في البحر ودليل السنية حالة الاعتدال الاقتداء بحاله - صلى الله عليه وسلم - في نفسه ورده على من أراد من أمته التخلي للعبادة كما في الصحيحين ردا بليغا بقوله «فمن رغب عن سنتي فليس مني» كما أوضحه في الفتح. اهـ.

وهو أفضل من الاشتغال بتعلم وتعليم كما في درر البحار وقدمنا أنه أفضل من التخلي للنوافل(قوله: فيأثم بتركه) لأن الصحيح أن ترك المؤكدة مؤثم كما علم في الصلاة بحر، وقدمنا في سنن الصلاة أن اللاحق بتركها إثم يسير وأن المراد الترك مع الإصرار وبهذا فارقت المؤكدة الواجب، وإن كان مقتضى كلام البدائع في الإمامة أنه لا فرق بينهما إلا في العبارة.

(قوله: ويثاب إن نوى تحصينها) ... لما قيل له صلى الله عليه وسلم إن أحدنا يقضي شهوته فكيف يثاب فقال - صلى الله عليه وسلم - ما معناه أرأيت لو وضعها في محرم أما كان يعاقب» فيفيد الثواب مطلقا إلا أن يقال المراد في الحديث قضاء الشهوة لأجل تحصين النفس، وقد صرح في الأشباه بأن النكاح سنة مؤكدة ... الخ."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:6-8، ط:سعيد) 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں