بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو شہید کیا گیا تھا؟


سوال

بعض مکتبہ فکر کے لوگ فرماتے ہیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا کو قتل کیا گیا تھا اور ایک گڑھا خود کر اس میں کیلیں یا لوہے یا تلوار کے ٹکٹرے رکھ کر جو کہ زہر آلود تھےاماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا کو گرا یا گیا جس سے وہ بیمار ہو کر شہید ہو گئیں۔ کیا اس میں حقیقت ہے ؟ کیا کسی مستند کتاب سے ثابت ہے ؟ 

جواب

حضرت  عائشہ   رضی اللہ عنھا نے17   رمضان شب منگل ہجری   57ھ    اور ایک قول کے مطابق       58ھ     حضرت امیرمعاویہ کے عہد خلافت میں مدینہ منورہ میں وفات پائی، اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی میت کو رات میں جنت البقیع میں دفن کیا گیا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ (کذا في إکمال في أسماء الرجال لصاحب المشکاة)

البدایة والنھایة  لابن  کثیر    میں  ہے  :

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی وفات 58 ھ کو بیماری کے باعث اپنے گھر میں ہوئی۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے۔

آپ کا نماز جنازہ سیدنا ابو ھریرة رضی اللہ عنہ نے نماز وتر کے بعد پڑھایا تھا۔

( ج : 4، جز : 7، ص : 97)

نیز  بعض  لوگ  جو  صحابہ  کرام  رضی  اللہ  عنھم  پربہتان  باندھتے  ہیں   اور  کچھ  صحابہ  کی  طرف  منسوب  کرکے  کہتے  ہیں  کہ  انہوں  نے  ایک گڑھا  کھدوایا  اور  اماں  عائشہ  رضی  اللہ  عنھا  اس  میں  گر  گئی  اور  اس  سے  ان  کی  وفات  ہوئی  ،  اس  الزام  اور  بہتا ن  کی  کوئی  حقیقت  نہیں  ہے،بلکہ  اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات طبعی ہی تھی، بعض روایات سے اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کی طبعی وفات ہی کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

امام بخاری رحمہ الله     کی  یہ  حدیث  ملاحظہ  ہو:

"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ، قَالَتْ: أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ وُجُوهِ المُسْلِمِينَ، قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ، قَالَ: «فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ» وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلاَفَهُ، فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَيَّ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا."

ترجمہ:ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لئے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں خدا کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ان شاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی۔

(صحيح البخاري: 6/ 106 رقم 4753)

بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کہ فطری وفات ہوئی تھی کیونکہ اگر گڑھے میں گر کر وفات ہوگئی ہوتی تو پھر وفات سے قبل لوگوں کی آمدرفت کا سلسلہ نہ ہوتا اسی طرح اجازت وغیرہ کا ذکر بھی نہ ہوتا کیونکہ یہ صورت حال اسی وقت ہوتی ہے جب کسی کی وفات اس کے گھر میں فطری طور پر ہو۔

فقط  واللہ  اعلم۔


فتوی نمبر : 144410100298

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں