بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دولہا کو ہلدی لگانا


سوال

کیا شادی کرنے والا مرد یاعورت ہلدی لگا سکتی ہے یا نہیں؟

ہمارے ہاں کچھ علماء  اثبات اور کچھ نفی میں جواب دیتے ہیں ، جو نفی کے قائل ہیں وہ علماء کا حوالہ دیتے ہیں کہ علماء منع کرتے ہیں ،اور جو علماء  اثبات کے قائل ہیں وہ  درج ذیل حدیث کا حوالہ دیتے ہیں ۔

"حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى على عبد الرحمن بن عوف أثر صفرة، فقال: " ما هذا؟ " فقال: إني تزوجت امراة على وزن نواة من ذهب، فقال: " بارك الله لك، أولم ولو بشاة ". قال: وفي الباب، عن ابن مسعود، وعائشة، وجابر، وزهير بن عثمان. قال أبو عيسى: حديث أنس حديث حسن صحيح، وقال أحمد بن حنبل: وزن نواة من ذهب: وزن ثلاثة دراهم وثلث، وقال إسحاق: هو وزن خمسة دراهم وثلث."

حضرت  انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف کے جسم پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے ایک عورت سے کھجور کی ایک گٹھلی سونے کے عوض شادی کر لی ہے، آپ نے فرمایا: ”اللہ تمہیں برکت عطا کرے، ولیمہ  کرو خواہ ایک ہی بکری کا ہو۔

براہ کرم شرعی طور پر راہ نمائی فرمائیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مردوں کو ہلدی لگانا جائز نہیں ہے،کیوں کہ اس میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے، جب کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے،اسی طرح لڑکی کو ہلدی  لگانا تو بُرائی نہیں، لیکن اس کے لیے تقریبات منعقد کرنا اور لوگوں کو دعوتیں دینا، جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا شوخ رنگ کے لباس پہن کر ایک دُوسرے کے سامنے جانا بے شرمی و بے حیائی ہے، ہلدی  کی رسم جن لوازمات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، یہ بھی  جاہلیت کی رسم  ہے، نیز ان رسموں میں کس قدر مال خرچ کیا جاتا ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحۃً ممانعت وارد ہے ۔

لہذا شادی کے موقع پر مردوں کومہندی لگانا جائز نہیں ہے،اور عورتوں کو شادی کے موقع پر مہندی لگانا ایک رسم بن چکی ہے،جسے اُبٹن کی رسم کہا جاتا ہے ،لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

سوال میں ذکر کردہ حدیثِ پاک کا جواب میں علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "ماھٰذا" میں " ما" استفہام انکاری ہے،کیوں کہ آپ علیہ السلام نے زعفران لگانے سے منع کیا تھا،نیز  انہوں نے قصداً اپنے کپڑے پر زردرنگ کا نشان نہیں لگایا، بلکہ بیوی کی وجہ سے لگ گیا یعنی اس کی وجہ سے مجھ پر یہ نشان ظاہر ہوا ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے :

"عن ابن عباس رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه و سلم: "أنه لعن المتشبهات من النساء بالرجال، و المتشبهين من الرجال بالنساء."

(كتاب اللباس، باب في لباس النساء،ج:4، ص:60، ط: المكتبة العصرية)

ترجمہ:" حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور (لعنت فرمائی) ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔"

ارشادِ خداوندی ہے:

"وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا  اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ  وَكانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّه كفُوْرًا"(سورة بني اسرائيل : الآية : 26)
ترجمہ: اور ( اپنے مال کو فضول اور بے موقع ) مت اُڑاؤ ، یقیناً بے جا اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے ۔ (بیان القرآن)

ارشاد الساری میں ہے: 

"حدثنا سليمان بن حرب حدثنا حماد هو ابن زيد عن ثابت عن أنس رضي الله عنه، أن النبي -صلى الله عليه وسلم رأى ‌على ‌عبد ‌الرحمن ‌بن ‌عوف ‌أثر ‌صفرة، قال: «ما هذا»؟ قال: إني تزوجت امرأة على وزن نواة من ذهب. قال: "بارك الله لك،أولم ولو بشاة".

وبه قال: (حدثنا سليمان بن حرب) الواشحي قال: (حدثنا حماد هو ابن زيد عن ثابت) هوالبناني (عن أنس -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- ‌رأى ‌على ‌عبد ‌الرحمن ‌بن ‌عوف ‌أثر ‌صفرة قال):(ما هذا) استفهام إنكار لما سبق من النهي عن التزعفر (قال: إني تزوجت امرأة على وزن نواة من ذهب) فعلق بي هذه الصفرة منها ولم أقصد ذلك (قال) عليه الصلاة والسلام: (بارك الله لك أولم ولو بشاة) فيستحب الدعاء للزوجين بالبركة بعد العقد، فيقال: بارك الله لك كما في هذا الحديث وبارك عليك الله وجمع بينكما في خير كما في الترمذي."

(كتاب النكاح ،باب كيف يدعي للمتزوج، ج: 8، ص: 65، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

اصلاح الرسوم میں ہے:

"گھر میں برادری اور کنبہ کی عورتیں جمع ہوکر لڑکی کو علیحدہ مکان میں معتکف کردیتی ہیں،جسے مائیوں بٹھلانا کہتے ہیں ،یہ ہندوانی رسم ہے،اس کے آداب یہ ہیں کہ اس کو چوکی پر بٹھلاکر اس کے داہنے ہاتھ پر ابٹنا رکھ دیتے ہیں ،اور گود میں کچھ کھیلیں اور بتاشے حاضرین میں تقسیم ہوتے ہیں،اور اسی تاریخ سے برابر لڑکی کے بٹنا ملاجاتا ہے،یہ رسم کئیں خرافات سے مرکب ہے،اور التزام مایلزم ہے جو کہ خلاف شرع ہے......براءت سے ایک دن قبل دولہا والوں کا حجام مہندی لے کر اور دلہن والوں کا ھجام نوشہ کا جوڑا لے اپنے اپنے مقام سے چلتے ہیں ،اور یہ منڈھے کا دن کہلاتا ہے،دولہا کے یہاں اس تاریخ پر برادری کی عورتیں جمع ہوکر دولہن کا چولہ تیار کرتی ہیں ،اور ان کو سلائی میں کھیلیں اور بتاشے دیے جاتے ہیں ،اور تما م کمینوں کو ایک ایک کام پر ایک پروت اس میں بھی وہی التزام مالایلزم  ہے ،اور نیز عورتوں کی جمعیت جو کہ مبنی مفاسد بے شمار کا ہے،ان تقریبات میں عورتیں چند موقع پر جمع ہوتی ہیں ،اور اس اجتماع میں جو خرابیاں ہیں ان کا شمار ہی نہیں۔"

(اصلاح الرسوم ، ص: 69+71 ،ط: مکتبہ رحمانیہ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال :شادی سے کچھ دن پہلے لڑکے کو مہندی لگاتے ہیں اور ابٹن لگاتے ہیں؟

جواب: یہ رسم خلاف شرع ہے ،اس کو بند کرنا لازم ہے۔"

(فتاوی محمودیہ، ج: 15، ص: 193، ط: جامعہ فاروقیہ)

احسن الفتاوی میں ہے:

"سوال: ہمارے ہاں یہ قدیم دستور چلا آرہا ہے کہ شادی کے موقع پر دلہن کو پھول پہناتے ہیں اور اسے مہندی لگائی جاتی ہے،ساتھ دوسری لڑکیاں بھی مہندی لگاتی ہیں،کیا عورتوں کے لیے مہندی لگانا اور پھول پہننا سنت ہے؟

جواب : عورتوں کے لیے مہندی لگانا مستحب ہے، مگر آج کل جو مہندی کی رسم کا دستور ہےکہ دوسری عورتوں کا بھی بڑا مجمع لگ جاتا ہے ،یہ کئی مفاسد کا مجموعہ ہے،اس لیے اس سے احتراز لازم ہے،اپنے طور پر عورتیں مہندی لگاسکتی ہیں۔"

(احسن الفتاوی ،کتاب الحظر و الاباحۃ، ج: 8، ص : 160، ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں