بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی سے مستعفی ہونے کی صورت میں ملنے والی رقم پر زکوۃ کا حکم


سوال

 کوہاٹ میں ایک مل ہے کوہاٹ ٹیکسٹائل ملز K.T.M اس میں یہ ترتیب چلتی ہے کہ جب کوئی ورکر بھرتی ہوتا ہے تو سال مکمل ہونے پر اس کو اس کے تنخواہ کے بقدر رقم اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے، مثلًا ایک ورکر   جنوری ۲۰۲۲ کو ۲۰ ہزار تنخوا پر بھرتی ہوا تو ۱ جنوری ۲۰۲۳ تک نوکری پر اس کے اکاونٹ میں ۲۰ ہزار روپے جمع ہوں  گے، دوسرے اور آئندہ جتنے بھی سال نوکری کرے گا تو پہلے مکمل سال کے علاوہ باقی سالوں کی  یہی تنخواہ کے بقدر رقم ۶ ماہ پوری ہونے پر اس کے اکاونٹ میں جمع ہوتی  ہے، اور یہ رقم اس کو مستعفی ہونے پر اکٹھی ملتی  ہے ۔  ضرورت کے وقت آفیسر کو درخواست کرنے پر بھی اس جمع رقم سے کچھ رقم نکلواسکتا ہے، دوسری بات یہ ہے کے جیسے جیسے ورکرز کی تنخواہ بڑھتی جاتی ہے جیسے پہلے ۵ سالوں میں ۲۰ ہزار ہے تو پانچ سالوں کے ایک لاکھ روپیہ جمع ہوگا، پھر تین سال ۲۵ ہزار تو شروع سے ہر سال پر ایک تنخواہ یعنی ۲۵ ہزار اور اگر ۳۰ سال سروس ہے اور تیسویں سال کی تنخواہ ۵۰ ہزار ہے تو تیس سال میں ہر سال کی ۵۰ ہزار کے حساب ۱۵ لاکھ روپیہ جمع ہوگا، ان تیس سالوں کے درمیان اگر مستعفی ہوکر دوبارہ بھرتی ہوگا تو حساب شروع سے ہوگا۔

کیا فرماتے مفتیان کرام اس ترتیب کی زکات کے بارے میں کہ مستعفی ہونے پر جو اکٹھی رقم ملے گی، تو اس رقم پر سال گزرنے پر تو زکات واجب ہے، لیکن یہی رقم جو ورکر کے ملکیت تو ہے لیکن اس پر قدرت حاصل نہیں اور ہرسال یا دوسال بعد تنخواہ کے بڑھنے کی وجہ سے یہ رقم بھی بڑھتی ہے۔ کیا  اس  رقم  پر  ہر  سال کی زکات واجب ہے؟  براہ کرم مدلل اور تفصیلًا  آگاہ فرمائیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں کمپنی کی طرف سے ملازمین  کی تنخواہ کے بقدر ہر سال  اتنی رقم اس کے  اکاؤنٹ میں ڈالی جاتی ہے اور یہ رقم مستعفی ہو نے صورت میں  یا  ضرورت کے وقت   مذکورہ رقم ملتی  ہے تو اس صورت میں جب مذکورہ رقم ملازم کی ملکیت میں آجائے اور  ملازم پہلے سے صاحبِ نصاب نہ ہو  جب کہ یہ رقم نصاب کے برابر  یا اس سے زائد ہو یا دیگر اموالِ  زکوۃ کے ساتھ مل کر نصاب تک پہنچ جائے  تو اس کے بعد ایک  سال  گزرجانے  پر جو رقم نصاب  کے برابر یا اس سے زائد باقی ہو، اس پر زکات واجب ہوگی، اور اگر ملازم پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو جس وقت وہ زکات کا سال مکمل ہونے پر زکات کا حساب کرتا ہے، اس وقت جتنی رقم اور اموالِ زکات موجود ہوں، ان کا ڈھائی فیصد بطورِ زکات واجب ہوگا۔ گزشتہ سالوں کی زکوۃ اداکرنا  واجب نہیں ہو گی ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلا عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلا عن شيء كالوصية أو بفعله بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصابا ويحول عليه الحول."

(ج:2،ص:175،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں