ہمارا لکڑی بانس اور چٹائی وغیرہ کا کاروبار ہے، اس میں ہمارے پاس مستری آتے ہیں کہ ہم آپ کے پاس کسٹمر لے کے آئیں گے اس میں جتنی بھی سیل ہوجائے آپ نے ہمیں ہزار یا پانچ ہزار دینے ہوں گے یا پھر ہزار کے اوپر سو روپے دینے ہوں گے ، ہمارے مال (مٹیریل) کا ریٹ طے اور مقرر نہیں ہوتا، ہم جتنے پر بیچنا چاہیں بیچ سکتے ہیں، اس صورت میں جب مستری ہمارے پاس کسٹمر لے کر آتے ہیں، ہم اس کسٹمر پر ریٹ مہنگا چلاتے ہیں، تاکہ کمیشن کاپیسہ اسی سے نکل جائے تو یہ کمیشن مستری حضرات کو دینا جائز ہے یا نہیں؟ اور ہمارا اس طرح کرناجائز ہے کہ نہیں؟
2)بعض مستری حضرات بانس خریدنے یا چٹائی وغیرہ خریدنے کے لیے آتے ہیں تو بانس یا چٹائی وغیرہ کا سودا دو سو یا پانچ سو میں طے ہوجاتا ہے تو مستری حضرات کہتے ہیں کہ اس کا بل تین یا چھ سو یا مہنگا بناؤ کیا اس طرح بل بنانا جائز ہے؟
اگر ہم اس طرح بل لکھنے سے منع کریں تو وہ جواباً کہتے ہے کہ آپ ہمیں اپنا بل بھی دو اور اس کے ساتھ ایک رف اور خالی بل دے دیں ہم اپنے حساب سے ریٹ لکھیں گے، کیا ہم ان کو اس طرح کرنے کے لیے زائد خالی بل دے سکتے ہیں کہ نہیں؟ یا ہم اس بل میں زائد ریٹ اس کے کہنے پر لکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
3)ہمارے پاس سیٹھ کے ساتھ مستری آتے ہیں اور سیٹھ سے کہہ دیتے ہیں کہ کام کے لیے پانچ سو عدد بانس کی ضرورت ہے، سیٹھ دکاندار کو پانچ سو عدد بانس کے پیسے دے کر چلاجاتا ہے اور سیٹھ کے چلے جانے کے بعد مستری اس میں سے کچھ مال کم کردیتا ہے یعنی وہ کہتا ہے کہ "پانچ سو کے بجائے چار سو پچاس بانس کی ضرورت ہے، پچاس عدد بانس واپس کرو اور اس کے پیسے مجھے دے دو، کیا مستری کو اس کی رقم دینا صحیح ہے؟ حالاں کہ واپس کرنے والے بانس کا علم سیٹھ کو نہیں ہوتا۔
4)ہمارے پاس منیجر آتے ہیں، اس کے ساتھ معاون (مزدور) ہوتا ہے تو جب سودا ہوجاتا ہے تو وہ منیجر کہتا ہے کہ طے شدہ قیمت میں ایک روپیہ یا دو روپیہ اس کو دے دو ، مثلاً 32 روپے قیمت مقرر ہوجاتا ہے تو وہ کہتے ہے کہ اس میں دو روپے میرے معاون کو دینے ہیں،اور بل میں پورے پیسے لکھے جاتے ہیں، یعنی سودا 32 روپے میں طے ہوجاتا ہے اور بل میں بھی 32 روپے لکھیں جاتے ہیں لیکن ہمیں 30 روپے دیتے ہیں، کیا اس طرح سودا کرنا جائز ہے کہ نہیں؟
1۔صورت مسئولہ میں مستری کا سائل کے ساتھ اس طور پر معاہدہ کرنا کہ ہم آپ کے پاس کسٹمر لے کر آئیں گے آپ نے ہمیں ہزار یا دو ہزار اجرت میں دینے ہیں، سائل کا مستری کے ساتھ اس طرح معاہدہ کرنا جائز ہے،بشرط یہ کہ کمیشن متعین ہو، اور کسٹمر کو یہ پتہ ہو کہ مستری سائل سے کمیشن لے گا، لیکن اگر کسٹمر اس کمیشن سے لا علم ہو تو اس طرح خفیہ کمیشن کا لین دین جائز نہیں۔
2۔سائل کا مستری کےلیے مقررہ قیمت سے زیادہ کا بل بنانا اس کو بل کے لیے خالی ورق دینا اور مستری کا اس میں مقرر قیمت سے زیادہ لکھناجھوٹ اور دھوکہ دہی ناجائز اور حرام ہے، نہ سائل کے لیے اس طرح کرناجائز ہے اور نہ مستری کے لیے جائز ہے کہ وہ اس طرح بل بنائے اور اس کی وجہ سے زیادہ پیسے لے ۔
3۔خریدار (سیٹھ) کی اجازت کے بغیر مستری کے کہنے پر خریدی ہوئی چیز (بانس یا چٹائی) میں کمی کرنا اور اس کی رقم مستری کو دے دینا، جب کہ مستری کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ ان بانسوں کا مالک نہیں ہے اور اس کے بارےمیں غالب گمان بلکہ یقین یہی ہے کہ وہ یہ رقم اپنے جیب ہی ڈالے گا تو دوکاندار کے لیے جائز نہیں ہےکہ وہ رقم مستری کو دے، یہ جھوٹ، دھوکہ دہی اور خیانت میں تعاون ہے۔
4۔مذکورہ صورت میں جب سائل اور منیجر کے درمیان قیمت طے ہوجائے اور اس کے بعد منیجر یہ شرط لگائے کہ " مذکورہ قمیت میں سے مثلاً ایک روپیہ میرے معاون کو دینا ہے"شرعاً درست نہیں ہے،بلکہ یہ کمپنی والوں کے ساتھ دھوکہ اور خیانت کرناہے، کیوں کہ ان لوگوں نے بل 32روپے کا بنایا اور انہوں نے 30روپے ادا کیے ہیں۔
قرآن مجید میں ہے:
"{ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (2)} [المائدة: 2]"
ترجمہ:اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔(بیان القرآن)
تفسير ابن كثير میں ہے:
"وقوله: {وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل.۔"
(سورۃ المائدة، تحت الآية:2، ج:2، ص:12، ط: دار طيبة)
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان۔"
(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب علامة المنافق، ج:1، ص:66، ط: رحمانیة)
"عن أبي حميد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه " وذلك لما حرم الله مال المسلم على المسلم۔"
(مسند أحمد بن حنبل ، ج:39، ص:19، ط:مؤسسة الرسالة)
"عن أبي هريرة: أن رسول الله - صلَّى الله عليه وسلم - مرَّ برجل يبيعُ طعاماً، فسأله "كيف تبيعُ؟ " فأخبره، فأُوحيَ إليه: أَدخِل يدَك فيه، فأدخَلَ يدَه فيه، فإذا هو مبلُولٌ، فقال رسول الله - صلَّى الله عليه وسلم -: "ليس منَّا مَن غَشَّ۔"
(سنن أبي داؤد، کتا ب البیوع، باب في النهي عن الغش، ج:2، ص:133، ط:رحمانیة)
بدائع الصنائع میں ہے:
"المقبوض في يد الوكيل بجهة التوكيل بالبيع والشراء وقبض الدين والعين وقضاء الدين - أمانة بمنزلة الوديعة، لأن يده يد نيابة عن الموكل بمنزلة يد المودع، فيضمن بما يضمن في الودائع، ويبرأ بما يبرأ فيها، ويكون القول قوله في دفع الضمان عن نفسه."
(كتاب الوكالة، فصل في الوكيلان هل ينفرد أحدهما بالتصرف فيما وكلا به، ج:6، ص:34، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام۔"
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في أجرة الدلال، ج:6، ص: 63، ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"روى ابن سماعة عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - إذا اشترى من آخر شيئا على أن يهب البائع لابن المشتري أو لأجنبي من الثمن كذا فسد البيع كذا في البحر الرائق."
(كتاب البيوع، الباب العاشر في الشروط التي تفسد البيع والتي لا تفسده، ج:3، ص:135، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144306100269
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن