بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن پررشوت لینا حرام ہے


سوال

 ایک بہت ہی ضروری مسلہ کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ سرکاری دفتروں میں ترقیاتی کاموں میں ٹھیکدار جو کمیشن افسران اور دفتری سٹاف کو دیتا ہے کیا وہ جائز ہے یا نہیں ؟اصل میں یہ کمیشن انگریز کے دور سے چل آ رہا ہے اس وقت یہ 12 یا 15 % کے حساب سے دے رہے تھے اب کم ہو کر 6،8 یا 10 % کے حساب سے دیتے ہیں ،چونکہ ان دفتروں میں عام پبلک،عوام اور خاص لوگ زیادہ آتے جاتے ہیں ان  کے ساتھ آنا جانا پڑتا ہے، اور چائے بسکٹ روٹی بھی کھلایا جاتا ہے، مطلب پبلک خدمات زیادہ ہوتی ہے؛ اس لئے ایک تنخواہ میں یہ سب اور گھر کے اخراجات بہت مشکل ہوتے ہیں، اور کھبی کبھی اور ٹائم اور دیر تک دفتر میں کام کرنا پڑتا ہے ۔

مفتی صاحب آپ مہربانی کر کے فتوی دیں کہ آیا یہ پیسے جائز ہیں یا ناجائز؟ حالانکہ گورنمنٹ کو اس ساری صورتحال کا پتہ ہے۔ میڈیکل فیلڈ میں ڈاکٹروں کے لئے دوائی لیبارٹری اور فیس وغیرہ میں اپنا کمیشن مقرر کیا ہے، جبکہ انجینئرز کے لئے حکومت کوئی کمیشن مقرر نہیں کر رہے اور نہ ہی اس کمیشن / پیسوں کے لئے کوئی روک تھام کرتے ہیں۔

جواب

          واضح  رہے کہ     رشوت   لینا اور دینا    دونوں  حرام اور سخت گناہ ہے  ہیں احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں، رشوت دینے میں تو کچھ مجبو ریاں  اور شدید ضرورت ہو سکتی ہے لیکن لینے میں کوئی مجبوری نہیں  ، کم تنخؤاہ ہے گذر بسر نہیں ہو تا یہ رشوت لینے کا جواز ہر گز نہیں بن سکتا ، نیز مفتیان کرام نے شدید مجبوری میں رشوت  دینے کی گنجائش لکھی ہیں وہ درج ذیل ہیں :اپنا ثابت شدہ حق (مثلا اپنی مملوکہ چیز دوسرے نے غصب کر لی ہے) اگر اس وقت نہ دے تو حق کا فیصلہ نہیں ملتا ہو  تو  اس صورت میں اپنا ثابت شدہ حق حاصل کر نے لئے رشوت دینے کی گنجائش ہے، اس طرح دفع ظلم کے لئے رشوت دہی کی گنجائش ہے۔

صورت مسئولہ میں سائل  نےسرکاری دفتر میں ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے حاصل کر نےپر رشوت دہی کی جو صورت ذکر کی ہے وہ جواز کی کسی صورت کے زمرے میں نہیں آتی نہ تو دفع ظلم  کے زمرے میں آتی ہے اور نہ ہی ثابت شدہ  حق کے دائرہ میں آتی ہے اس لئے  اس صورت میں رشوت دہی  شرعا جائز نہیں ، باقی سائل نے جو انگریزوں کے  دور سے رائج رشوت دہی کے نظام کا ذکر کیا ہے  تو یہ بات یاد رکھیں کہ ناجائز کام  خواہ انگریزوں کے دور سے چلا آرہا ہو یا مسلمانوں نے شروع کیا ہو ہمیشہ ناجائز ہی رہے گا معاشرہ میں جو بگاڑ  رشوت کی وجہ سے آیا اور عدل وانصاف  کا خون  ہو رہا ہے  وہ کسی ڈھکی چھپی نہیں لہذا اس کے جواز کے حیلے بہانے تراشنے کے بجائے  اس کی منحوسیت سے معاشرہ کو بچانے  کی فکر کرنی چاہیے ۔

حدیث شریف میں ہے :

    "حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا ابن أبي ذئب، عن الحارث بن عبد الرحمن، عن أبي سلمةعن عبد الله بن عمرو، قال: لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الراشي والمرتشي."

 (سنن ابی داود ، ج: 5، ص: 433، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:"حضور اقدس ﷺ نے لعنت فرمائی ہے  ر شوت لینے والے  اور رشوت دینے والے پر ۔"

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: إذا خاف علي دينه) عبارة المجتبي: لمن خاف. وفيه ايضاً: دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه و ماله و لإستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اھ".

(423/6 ط: سعيد)

ایضا:

"الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط۔۔۔۔الرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب"

(362/3،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں