بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کے ایم سی (KMC) والوں کا کتے اور بلیوں کو مارنے کا حکم


سوال

 کئی لوگ اور تنظیمیں (KMC) وغیرہ ایسے ہیں جو کتوں اور بلیوں جیسے جانوروں کو بغیر کسی وجہ کے مار دیتی ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ یہ معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں کچھ سیاسی کارکنوں کی طور پر مقبولیت حاصل کرنے کے لیے(الیکشن سے قبل) ایسا کرتے ہیں۔ انہیں کھانے میں ملا کر زہر دیا جاتا ہے یا زہر کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے، وہ کافی تکلیف سے تڑپ کر مر جاتے ہیں حتیٰ کہ جانوروں کے بچوں پر بھی رحم نہیں کرتے۔ اگر کوئی انکار کرتا ہے تو وہ ان کی بات نہیں مانتے اور قتل کرنے کے بعد کچھ کو وہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور کچھ کو اپنی پرائیویٹ گاڑیوں میں لے جاتے ہیں۔ لہٰذا میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اسلام میں اس قسم کی حرکت کرنا جائز ہے؟ چاہے وہ معصوم، بے ضرر یا پالتو ہی کیوں نہ ہوں یا صرف بھونکتے ہی ہوں۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ کتے کے طور پر پیدا ہوئے ہیں اور لوگ انہیں اسلام میں حرام سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ اب یہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی طرف سے بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ ان کے لیے اب باقإدہ قانون ہے،  حکومت کی طرف سے ایسا کرنے والے سخت جرمانے، الزامات اور سزا کے مرتکب ہیں، اسی لیے وہ انہیں کافی رات کو خاموشی سے مار دیتے ہیں اور اسے ”کتّا مار مہم“ کا نام دے دیتے ہیں۔انہیں صرف ریبیز کے ٹیکے لگانے کی اجازت ہے جو ACF جیسے جانوروں کے حقوق کے اداروں (NGOs) کو حاصل ہے۔

جواب

از رُوئے شرع اگر کوئی جانور موذی بن جائے، لوگوں کو ضرر نقصان پہنچائے تو صرف ایسےموذی جانوروں کو جب کہ وہ ایذاء رسان ہو مارنے کی اجازت ہے،اس کے علاوہ عام حالات میں ایسا جانور جو ایذاء رساں نہ ہو تو ان کا مارنا بھی یا کسی بھی طرح سے ستانا  ایک عظیم گناہ ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر بلی اور کتا ضرر رساں نہیں ہے، تو مذکورہ محکموں کے لئے ان جانوروں محض سیاسی مقاصد کے لئے قتل کرنا یا کسی بھی طرح سے تکلیف دینا جائز نہیں ہے، اور مذکورہ غرض کی بناء پر جانوروں کا قتل کرنا اور ان کو تکلیف انتہائی باعثِ گناہ ہے، جیسا کہ درجِ ذیل روایت میں مروی ہے:

"عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من أعظم الذنوب عند الله رجل تزوج امرأة، فلما قضى حاجته منها طلقها وذهب بمهرها ورجل استعمل رجلا فذهب بأجرته وآخر يقتل دابة عبثا".

(السنن الكبرى للبيهقي، کتاب الصداق، باب ما جاء في حبس الصداق عن المرأة، رقم الحدیث:14395، ج:7، ص:394، ط:دارالکتب العلمیۃ)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نے فرمایا:کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی خاتون سے نکاح کرے، جب حاجب پوری ہوجائے تو طلاق دیدے اور مہر بھی نہ دیں، اور وہ شخص جو کسی مزدور سے کام کروالےجبکہ مزدوری نہ دیں، اور ایک اور وہ شخص جو جانوروں کو بغیر کسی وجہ کے قتل کرے۔"

تاہم اگر بلی ضرر رساں ہے، اور اس سے چھٹکارے کی کوئی بھی معقول  صورت (مثلاً کہیں دور جنگل وغیرہ میں چھوڑدینے ) نہ ہو تو اس کو ایسے طریقے سے قتل کرنا کہ تکلیف نہ ہو مثلاًاگر بلی کا پکڑنا ممکن ہے تو اس کو تیز دھار چھری سے ذبح کیا جائے، اور اگر پکڑنا ممکن نہ ہو تو زہرکے ذریعے مارا جاسکتا ہے۔

اسی طرح کوئی کتا آوارہ ہوا،  ضرر رساں ہو لوگوں کو موقع ملتے ہی کاٹتا ہو، کاٹنے کے لئے لوگوں کے پیچھے دوڑتا ہو جیسا کہ عام طور پر شہر/گاؤں وغیرہ میں آوارہ گھومنے والے کتے اسی قسم کے ضرررساں ہوتے ہیں، جو بچوں جوانوں بوڑھوں کو کاٹتے ہیں تو ایسے آوارہ کتوں کوقتل کرنا جائز ہے، بلکہ ایسے ضرر رساں کتوں کو قتل کرنا مستحب ہے، لیکن کتے کو بھی قتل کرنے میں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ  تکلیف کم سے کم ہو، مثلاً: کا پکڑنا ممکن ہے تو اس کو تیز دھار چھری سے ذبح کیا جائے، اور اگر پکڑنا ممکن نہ ہو تو زہرکے ذریعے مارا جاسکتا ہے، تڑپا یا ترسا کر مارنے کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔

شرح النووي على صحیح مسلم میں ہے:

"حدثني عبد الله بن محمد بن أسماء الضبعي، حدثنا جويرية بن أسماء، عن نافع، عن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار، لا هي أطعمتها وسقتها، إذ حبستها، ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض»

قوله صلى الله عليه وسلم (عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار لا هي أطعمتها وسقتها إذ حبستها ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض) فى رواية ربطتها وفي رواية تأكل من حشرات الأرض معناه عذبت بسبب هرة ومعنى دخلت فيها أى بسببها وخشاش الأرض بفتح الخاء المعجمة وكسرها وضمها حكاهن في المشارق الفتح أشهر وروي بالحاء المهملة والصواب المعجمة وهي هوام الأرض وحشراتها كما وقع في الرواية الثانية وقيل المراد به نبات الأرض وهو ضعيف أو غلط وفي الحديث دليل لتحريم قتل الهرة وتحريم حبسها بغير طعام أو شراب وأما دخولها النار بسببها فظاهر الحديث أنها كانت مسلمة وإنما دخلت النار بسبب الهرة وذكر القاضي أنه يجوز أنها كافرة عذبت بكفرها وزيد في عذابها بسبب الهرة واستحقت ذلك لكونها ليست مؤمنة تغفر صغائرها باجتناب الكبائر هذا كلام القاضي والصواب ماقدمناه أنها كانت مسلمة وأنها دخلت النار بسببهاكما هو ظاهر الحديث وهذه المعصية ليست صغيرة بل صارت بإصرارها كبيرة".

(كتاب قتل الحيات وغيرها، باب قتل الہرۃ، ج:14، ص:240، ط:داراحیاء التراث العربی)

فتاوی شامی ہے:

"(وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحًا) ولايضر بها؛ لأنه لايفيد، ولايحرقها وفي المبتغي: يكره إحراق جراد وقمل وعقرب،(قوله: وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج زيلعي (قوله ويذبحها) الظاهر أن الكلب مثلها تأمل (قوله يكره إحراق جراد) أي تحريما ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحية".

(مسائل شتی، ج:6، ص:752، ط: سعید)

فتاویٰ عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"قرية فيها كلاب كثيرة ولأهل القرية منها ضرر يؤمر أرباب الكلاب أن يقتلوا الكلاب فإن أبوا رفع الأمر إلى القاضي حتى يلزمهم ذلك كذا في محيط السرخسي".

(کتاب الکراهیة، الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات، ج:5، ص:360، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406102039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں