بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کم پیٹرول کو زیادہ کرکے بیچنا


سوال

میرا پیٹرول کا کاروبار ہے،  میں پیٹرول کا لین دین کرتا ہوں  ،میرا سوال یہ ہے کہ جب ہم پیٹرول لیتے ہیں تو اس کو ڈرم میں ڈال کر ڈرف کرتے ہیں ، ڈرف کا مطلب یعنی ناپ تول کرتے ہیں  کہ اس میں کتنا پیٹرول ہے پتا چل جاتا ہے،  ڈرف کا طریقہ یہ ہے کہ ایک لمبا باریک لوہا ہوتا ہے اس میں نمبر لکھے ہوئے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ ڈرم کے اندر کتنا پیٹرول ہے، لیکن ڈرف دو طریقے سے ہوتا ہے پہلا طریقہ یہ ہے کہ ڈرف کو ڈرم کے اندر مار کر اوپر نکال کر پیٹرول کا پیمانہ کیا جاتا ہے کہ اس میں کتنا لیٹر پیٹرول ہے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ڈرف کو ڈرم کے اندر مار کر ڈرم کے اندر سے دیکھ کر پیمانہ کیا جاتا ہے کہ اس میں کتنا لیٹر ہے۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ جب ہم پہلے طریقے سے ڈرف کرتے ہے تو اگر ڈرم کے اندر 210 لیٹر پیٹرول ہے تو جب ڈرف کو ڈرم کے اندر مار کر نکالتے ہیں تو پیٹرول کی نمی کی وجہ سے ایک لیٹر پیٹرول بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے ڈرم میں موجود 210 لیٹر پیٹرول 211 لیٹر ہوجاتا ہے اس طرح سے ہم جس سے پیٹرول خرید رہے ہیں  اس کو ایک ڈرم میں ایک لیٹر پیٹرول منافع ہورہا ہے اور جس کو پیٹرول بیچ رہے ہیں  اس کو فی ڈرم ایک لیٹر نقصان ہورہا ہے، اور ہمارے یہاں سب لوگ ڈرف اسی طرح کرتے ہیں ڈرف کا  صحیح طریقہ یہی بتاتے ہیں  اور لوگ اس طریقے کے ڈرف کو پسند بھی کرتے ہیں اور دوسرے طریقے کا ڈرف کا پیمانہ بالکل صحیح آتا ہے یعنی ڈرم میں اگر 210 لیٹر پیٹرول ہے تو ڈرف کو ڈرم کے اندر رکھ کر دیکھنے سے 210 لیٹر پیٹرول آیگا، لیکن اس طرح ڈرف کو لوگ ناپسند کرتے ہیں  اب میں کونسا طریقہ ڈرف اپناؤں،  پہلا والا ڈرف کا طریقہ یا دوسرا والا ڈرف کا طریقہ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دوسرا طریقہ  چوں کہ شریعت کے مطابق ہے ،لہذا دوسراطریقہ  درست ہے اگر چہ لوگ اسے پسند نہ کرتے ہوں، اور پہلے والے طریقہ میں چونکہ حقیقی مقدار معلوم نہیں ہوتی ،نیز اس میں دوسروں کو نقصان بھی  پہنچتا ہے اس لیے یہ طریقہ درست نہیں۔

سائل کا یہ کہنا کہ اس میں لوگوں کا نقصان ہے ،مگر پھر بھی اسے ہی پسند  کرتے ہیں، تو اس کی وجہ کیاہے، اس بات کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال ارسال کریں۔

شرح الأربعين النوويه لابن دقيق العيد میں ہے:

"اعلم أن من أضر بأخيه فقد ظلمه والظلم حرام كما تقدم في حديث أبي ذر "يا عبادي إني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرماً فلا تظالموا"  وقال النبي صلى الله عليه وسلم: "إن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام.

وأما قوله: "لا ضرر ولا ضرار" فقال بعضهم: هما لفظان بمعنى واحد تكلم بهما جميعاً على وجه التأكيد، وقال ابن حبيب: الضرر عند أهل العربية الاسم والضرار الفعل: فمعنى "لا ضرار" أي لا يدخلأحد على أحد ضرراً لم يدخله على نفسه. ومعنى "لا ضرار" لا يضار أحد بأحد. وقال المحسني: الضرر هو الذي لك فيه منفعة وعلى جارك فيه مضرة وهذا وجه حسن المعنى. وقال بعضهم: الضرر والضرار مثل القتل والقتال فالضرر أن تضر من لا يضرك: والضرار: أن تضر من أضر بك من غير جهة الاعتداء بالمثل والانتصار بالحق."

(لاضرر ولاضرار،ص:107،ط:مؤسسة الريان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں