دو بھائی تھے، ایک کانام آصف، دوسرے کا نام منیر تھا، تو آصف نے منیر سے کچھ پیسے چوری کر لیے، جس کا منیر کو علم نہیں تھا، اب کچھ سال بعد آصف نے منیر سے کہا کہ بھائی اگر میں نے آپ سے کوئی چوری کی ہو یا آپ کا کوئی حق مارا ہو یا آپ سے بداخلاقی سے پیش آیا ہوں یا آپ کی مار پٹائی کی ہو، تو مجھے معاف کر دیجیے، جواب میں منیر نے کہا کہ ٹھیک ہے بھائی میں نے آپ کو معاف کر دیا، تو کیا اب منیر کے معاف کر دینے سے آصف نے جو منیر سے پیسے چرائے تھے کچھ سال پہلے، وہ بھی معاف ہوگئے ،یا اب تک وہ معاف نہیں ہوئے؟
صورتِ مسئولہ میں آصف کو چاہیے کہ منیر کو بتادے کہ میں نے آپ کےاتنے پیسے چرائے تھے اور اب آپ مجھے معاف کر دو اگر وہ معاف کردے تو ٹھیک ہے ورنہ تو اس کے لیے آصف پر واپس کرنا لازم ہے، محض عمومی معافی سے یا مبہم الفاظ سے حق معاف نہیں ہوگا، کیوں کہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور شریعت مطہرہ میں حقوق العباد کا معاملہ بہت سخت ہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كانت له مظلمة لأحد من عرضه أو شيء فليتحلله منه اليوم، قبل أن لايكون دينار ولا درهم، إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته، و إن لم تكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه»."
(باب من كانت له مظلمة عند الرجل، ج:3، ص:130، ط:دارطوق)
حضرت مولانا مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ سورہ نساء آیت :4 کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
"مطلب یہ ہے کہ جبر واکراہ اور دباؤ کے ذریعہ معافی حاصل کرنا تو کوئی چیز نہیں، اس سے کچھ معاف نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ بالکل اپنے اختیار اور رضامندی سے کوئی حصہ مہر کا معاف کر دیں یا لینے کے بعد تمہیں واپس کر دیں تو وہ تمہارے لیے جائز ہے اور درست ہے۔"
(ج:2،ص:298،ط:مکتبہ معارف القرآن)
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
"قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم : ألا تظلموا ألا لا يحلّ مال امرئ إلاّ بطيب نفس منه."
(مشکوۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریة، رقم:2946، ج:2، ص:889، ط:المکتب الإسلامی)
ترجمه:الله كے رسول صلي الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا:خبردار ہوجاؤ! ظلم نہ کرو،خبردار ہوجاؤ! کسی آدمی کا مال اسی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے :
"قال ابن نمير: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه يوم القيامة إلى سبع أرضين"، قال ابن نمير: "من سبع أرضين."
(مسند أحمد، مسند العشرۃ المبشرۃ، مسند سعید بن زید، ج:2، ص:291، ط:دار الحدیث۔القاھرۃ)
ترجمه:الله كے رسول صلی الله عليہ وسلم كا ارشاد ہے:کسی نے ایک بالش بھر بھی زمین ظلم سے لے لی تو سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"الصلاة لإرضاء الخصوم لاتفيد، بل يصلي لله، فإن لم يعف خصمه أخذ من حسناته جاء: «أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة».
(قوله: جاء) أي في بعض الكتب، أشباه عن البزازية، ولعل المراد بها الكتب السماوية أو يكون ذلك حديثاً نقله العلماء في كتبهم: والدانق بفتح النون وكسرها: سدس الدرهم، وهو قيراطان، والقيراط خمس شعيرات، ويجمع على دوانق ودوانيق؛ كذا في الأخستري حموي (قوله: ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة) أي من الفرائض لأن الجماعة فيها: والذي في المواهب عن القشيري سبعمائة صلاة مقبولة ولم يقيد بالجماعة. قال شارح المواهب: ما حاصله هذا لاينافي أن الله تعالى يعفو عن الظالم و يدخله الجنة برحمته ط ملخصاً."
(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ج:1، ص:439، ط:دار الفكر۔بيروت)
وفیہ ایضاً:
"والأصل أن المستحق بجهة إذا وصل إلى المستحق بجهة أخرى اعتبر واصلاً بجهة مستحقة إن وصل إليه من المستحق عليه وإلا فلا.
(قوله: إن المستحق بجهة) كالرد للفساد هنا، فإنه مستحق للبائع على المشتري، ومثله رد المغصوب على المغصوب منه. (قوله:بجهة أخرى) كالهبة ونحوها.
(قوله:وإلا فلا) أي وإن لم يصل من جهة المستحق عليه، بل وصل من جهة غيره فلايعتبر."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:92، ط:دار الفكر۔بيروت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144606100261
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن