بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا صحیح البخاری میں دلائل سے رفع الیدین کا ثبوت یا عدم ثبوت موجود ہے؟


سوال

کیا صحیح البخاری میں دلائل سے رفع الیدین کا ثبوت یا عدم ثبوت موجود ہے؟

جواب

واضح رہے کہ صحیح احادیث صرف وہی نہیں ہیں جو امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ذکر کی ہیں، بلکہ امام بخاری نے اپنی شرائط اور فقہی ذوق کے مطابق صحیح احادیث میں سے انتخاب کرکے اپنی کتاب میں ان کو ذکر کیا ہے، (حدیث اور تاریخ پر امام بخاری رحمہ اللہ کی دیگر کتابیں بھی ہیں، ان میں بہت سی مزید روایات خود امام بخاری رحمہ اللہ نے جمع کی ہیں۔) صحیح بخاری میں سات ہزار اور کچھ احادیث ہیں، جن کے بارے میں خود امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو چھ لاکھ احادیث میں سے انتخاب کرکے لیا ہے، ابراہیم بن معقل رحمہ اللہ ان سے روایت کرتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب "صحیح بخاری" میں صرف وہی احادیث ذکر کی ہیں جو صحیح ہوں اور بہت سی صحیح احادیث کو طوالت کی وجہ سے ذکر نہیں کیا ہے، نیز خود امام بخاری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جو صحیح احادیث میں نے ذکر نہیں کیں وہ ان سے زیادہ ہیں جن کو میں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے، لہذا صحیح حدیث کا مدار یہ نہیں ہے کہ وہ صحیح بخاری میں موجود ہو، ہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے ذوق کے مطابق  سخت  شرائط  کے  ساتھ  صحیح احادیث میں سے منتخب کرکے ان میں سے چند کا انتخاب کیا ہے۔

ثمرات النظر فی علم الاثر میں ہے:

"وقوله ما أدخلت في كتابي الجامع إلا ما صح فهو كلام صحيح إخبار عن نفسه أنه تحري الصحيح في نظره."

(ثمران النظر في علم الأثر، ص: 137، ط: دار العاصمة للنشر والتوزيع، الرياض)

اسی طرح "الامام البخاري وكتابه الجامع الصحيح" ميں ہے:

"تصريحه بذلك في نصوص كثيرة نقلت عنه تقدم ذكر بعضها في السبب الباعث له على تأليفه وفي التنويه بمدى عنايته في تأليفه ومن ذلك غير ما تقدم ما نقله الإسماعيلي عنه أنه قال: "لم أخرج هذا الكتاب إلا صحيحا وما تركت من الصحيح أكثر". وروى إبراهيم بن معقل عنه أنه قال: "ما أدخلت في كتابي الجامع إلا ما صح وتركت من الصحيح حتى لا يطول."

(الإمام البخاري وكتابه الجامع الصحيح، ص: 39، ط: الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة)

اسی طرح الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع میں ہے:

"حدثني الحسن بن محمد الدربندي، قال: سمعت محمد بن الفضل المفسر، يقول: سمعت أبا إسحاق الريحاني، يقول: سمعت عبد الرحمن بن رساين البخاري، يقول: سمعت محمد بن إسماعيل البخاري، يقول: صنفت كتابي لصحاح بست عشرة سنة، خرجته من ستمائة ألف حديث وجعلته حجة فيما بيني وبين الله عز وجل."

(الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، ج: 2، ص: 185، ط: مكتبة المعارف الرياض)

صحیح احادیث پر مشتمل دیگر کتابیں اور مجموعے بھی موجود ہیں، امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب بھی صحیح ہے، لیکن امام مسلم رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہر وہ حدیث جو صحیح ہو وہ میں نے اپنی کتاب میں ذکر نہیں کی ہے۔موطا امام مالک رحمہ اللہ میں بھی صحیح احادیث ہیں، صحیح ابن حبان وغیرہ بھی صحیح ہیں۔ اسی طرح کتب ستہ اور احادیث کی دیگر کتابوں میں بھی صحیح احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے  کہ احادیث کی صرف دو ہی قسمیں صحیح اورضعیف نہیں ؛بلکہ اس کی متعدد اقسام ،مثلاً: صحیح لذاتہ،صحیح لغیرہ ؛حسن لذاتہ،حسن لغیرہ ، ضعیف، موضوع وغیرہ وغیرہ ، پھر ضعیف کی بھی بہت سی قسمیں ہیں، اور عمل اور استدلال کے اعتبار سے بھی ان میں فرقِ مراتب ہوتا ہے، مثلاً حدیث صحیح کی پانچ شرطیں ہیں:

۱:․․․سند کا اتصال۲:․․․راویوں کی عدالت۳:․․․ضبط ۴:․․․شذوذ ۵:․․․علتِ قادحہ سے محفوظ ہونا۔

حدیثِ حسن بھی انہیں صفات کی حامل ہوتی ہے، البتہ اس کے کسی راوی میں ضبط کے اعتبار سے معمولی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدیث نہ تو صحیح کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی ضعیف میں شمار ہوتی ہے بلکہ وہ حدیث "حسن" شمار ہوتی ہے۔ اور حسن کی ایک قسم وہ ضعیف ہے جو تعدد طرق کی وجہ سے قوت پاکر حسن بن جاتی ہے اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں اور جو حدیث اس سے بھی کم درجہ کی ہو وہ ضعیف کہلاتی ہے، جس کے مراتب مختلف ہوتے ہیں، سب سے کم موضوع ہے جو من گھڑت ہوتی ہیں۔

صحیح اور حسن کے تو قابلِ استدلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ جمیع ابوابِ دین میں ان سے استدلال کیا جاتا ہے، البتہ ضعیف کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کی رائے یہ ہے کہ احکام یعنی حلال وحرام کے باب میں تو ضعیف کو حجت نہیں بنایا جاسکتا ہے،  بشرطے کہ اسے تلقی بالقبول حاصل نہ ہو، اور اس کے متابع اور شواہد موجود نہ ہوں۔  البتہ فضائلِ اعمال میں،ترغیب وترہیب، قصص، مغازی وغیرہ میں چند شرائط کے ساتھ اس کو دلیل بنایا جاسکتا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے چوں کہ التزام کررکھا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف ان ہی راوایات کو جگہ دیں گے ؛ جوان قسموں میں سے اول درجے کی ہوں گی۔ بقیہ قسمیں بخاری اورمسلم میں جگہ نہیں پاسکیں ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیثیں منکرہیں، جیسا کہ اس کی تفصیل شروع میں ذکر ہوئی، بلکہ محدثین کو جو روایات پہنچیں؛ان کو انہوں نے جانچا ،ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جتنے لوگ اس روایت کو نقل کرنے میں واسطہ بنتے؛ ان کے احوالِ زندگی،ان کے قوتِ حفظ ،مہارت ،ضبط اور عدالت وغیرہ کو جانچنے کے بعد اس حدیث پر صحیح ،حسن ،صحیح لغیرہ یا حسن لغیرہ اورضعیف وغیرہ کا حکم لگادیا۔ اگر روایت سب سے اعلی درجہ کی ہوتی ہے؛ تو اس کو صحیح کہہ دیتے، اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی نظر آتی تو اس کو حسن وغیرہ کہہ دیتے،بعض مرتبہ تمام شرائط پائی جاتیں؛مگر اس کو محض اپنے خاص ذوق(علۃ خفیہ) کی وجہ سے چھوڑ دیتے۔ ہاں! اگر اس روایت کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ جھوٹی ہے تو اس کو منکراور موضوع قرار دیتے اوراسے اپنی کتابوں میں نقل ہی نہ کرتے ۔ موضوعا ت کی کتابیں الگ سے لکھی گئی ہیں؛تاکہ کسی موضوع روایت کے بارے میں تحقیق کرنی ہوتو اس کتاب میں اس کی تفصیل مل جائے گی۔

اسی طرح صحت کی شرائط کے لحاظ میں بھی محدثین کے اذواق مختلف ہوئے ہیں، بعض ائمہ اس حوالے سے متشدد ہیں، چناں چہ جمہور کے ہاں بعض روایات صحت کے درجے کو پہنچتی ہیں لیکن وہ انہیں بھی صحت کا درجہ نہیں دیتے۔

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

رفع یدین کامسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے مختلف فیہ ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بعض صحابہ کرام رفع یدین کرتے تھے اوربعض نہیں کرتے تھے۔اسی وجہ سے مجتہدینِ امت میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہواہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ترکِ رفع یدین والی روایات کوراجح قراردیاہے،کئی اکابر صحابہ کرام کامعمول ترکِ رفع کاتھا، اوریہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری عمل ہے۔ احناف کے نزدیک ترکِ رفع یدین ہی سنت ہے۔

پھر چوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ خود مجتہد ہیں، لہذا انہوں نے اپنے اجتہاد کی بنا پر رفع یدین والی روایات کو اپنی کتاب میں ذکر کیا اور ترک رفع یدین والی روایات کو چھوڑ دیا۔البتہ دیگر ائمہ محدثین نے ترک رفع یدین والی روایات کو بھی اپنی کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ان میں سے چند روایات درج ذیل ہیں جن میں:

1-"حدّثنا إسحاق، حدثنا ابن إدریس قال: سمعت یزید بن أبي زیاد عن ابن أبي لیلی عن البراء قال: رأیت رسول الله صلی الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریبًا من أذنیه ثم لم یرفعهما".

ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جس وقت نماز شروع فرمائی تھی، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا، اس کے بعد پھر اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔

(سنن أبي داؤد، ج: 2، ص: 67، رقم: 752،ط: دار الرسالة العالمية)

2- "عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود".

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔

(شرح معاني الآثار، ج: 1، ص: 224، رقم: 1349، ط: عالم الكتب)

3-"عن جابر بن سمرة قال: خرج علینا رسول الله صلی الله علیه وسلم فقال: مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلاة".

 ترجمہ : حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف تشریف لاکر فرمایا : مجھے کیا ہوگیا کہ میں تم لوگوں کو نماز کے اندر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، گویا کہ ایسا لگتا ہے جیسا کہ بے چینی میں گھوڑے اپنی دم کو اوپر اٹھا اٹھا کر ہلاتے ہیں، تم نماز کے اندر ایسا ہرگز مت کیا کرو، نماز میں سکون اختیار کرو۔

(صحيح مسلم، ج: 2، ص: 241، رقم 1000، ط: دار الرسالة العالمية)

4- "عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول الله صلی الله علیه وسلم، فصلی فلم یرفع یدیه إلا في أول مرة".

ترجمہ: حضرت علقمہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ آگاہ ہوجاؤ! میں تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازپڑھ کر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف ایک مرتبہ اٹھایا پھر نہیں اٹھایا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے، اور صحابہ تابعین تبع تابعین اور بے شمار محدثین اور علماء نے اس حدیث شریف کو اختیار فرمایا، اور یہی امام سفیان ثوری (جلیل القدر محدث) اور اہلِ کوفہ نے کہا ہے۔

چنانچہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"قال أبو عیسیٰ: حدیث ابن مسعود حدیث حسن، وبه یقول غیر واحد من أهل العلم من أصحاب النبي والتابعین، وهو قول سفیان وأهل الکوفة".

(سنن الترمذی، ج: 1، 343، رقم، 257، ط: دار الغرب الإسلامي بيروت)

5-"عن إبراهيم عن الأسود قال: رأیت عمر بن الخطاب یرفع یدیه في أول تکبیرة، ثم لایعود، قال: ورأیت إبراهيم والشعبی یفعلان ذلك".

ترجمہ: امام نخعیؒ، حضرت اسود بن یزیدؒ سے نقل فرماتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو دیکھا کہ وہ نماز میں صرف شروع کی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد کسی میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اور راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم اور عامر شعبی کو بھی ایسا ہی کیا کرتے دیکھا۔

(شرح معاني الآثار، ج: 1، ص: 227، رقم: 1364، ط: عالم الكتب)

مذکورہ دلائل سے معلوم ہوتا ہےکہ بہت سے اصحاب رسول، تابعین اور ائمہ حدیث ترک رفع یدین کے قائل تھے۔لہذا امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنی کتاب میں ترک رفع یدین کے دلائل کو ذکر نہ کرنا ان دلائل كی عدم موجودگی کی دلیل نہیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں