بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے جاسکتی ہے؟


سوال

کیا عورت کا اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہوٹل میں کھانا کھانے جانا جائز ہے؟کبھی کبھی انسان کو اپنے دوستوں سے ملنے کا دل کرتا ہے تو کیا یہ نا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں عورت کوپردہ میں رہنے کی بہت تاکیدواردہوئی ہے،اوربلاضرورتِ شرعیہ اس کے گھر سےنکلنےکوناپسندکیاگیاہے،حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےنمازکےمعاملہ میں بھی یہ پسندفرمایاہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں نماز پڑھیں اوراسی کی ترغیب دی ہے۔

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں عورت کااپنی سہیلیوں کےساتھ ہوٹل میں کھاناکھانےکےلیےگھرسےنکلناجائزنہیں ہے،البتہ اگرکسی عورت کواپنی سہیلی سےملاقات کاشوق ہوتوہوٹل کی بجائے سہیلی   کے گھر چلی جائےیااس کواپنےگھر آنےکی دعوت دےبہ شرط یہ کہ مکمل پردےکاانتظام ہو،اورنامحرم مردوں سےاختلاط نہ  ہو۔

اللہ تعالی فرماتےہیں :

"وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأُولَى."

"اورتم اپنےگھروں میں قرارسےرہواورقدیم زمانہ جاہلیت کےدستورکےموافق مت پھرو."

(ماخوذ ازبیان القرآن ، ج:  3، ص: 173، ط: رحمانیہ)

’’ أحکام القرآن للفقیہ المفسر العلامۃ محمد شفیع رحمہ اللّٰہ ‘‘  میں ہے:

"قال تعالی : {وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الأولی}  [الأحزاب :۳۳]فدلت الآیة علی أن الأصل في حقهن الحجاب بالبیوت والقرار بها ، ولکن یستثنی منه مواضع الضرورة فیکتفی فیها الحجاب بالبراقع والجلابیب ... فعلم أن حکم الآیة قرارهن في البیوت إلا لمواضع الضرورة الدینیة کالحج والعمرة بالنص ، أو الدنیویة کعیادة قرابتها وزیارتهم أو احتیاج إلی النفقة وأمثالها بالقیاس، نعم! لا تخرج عند الضرورة أیضًا متبرجةّ بزینة تبرج الجاهلیة الأولی، بل في ثیاب بذلة متسترة بالبرقع أو الجلباب، غیر متعطرة ولامتزاحمة في جموع  الرجال؛ فلا یجوز لهن الخروج من بیوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب کل الإهتمام ۔ وما سوی ذلک فمحظور ممنوع."

(۳/۳۱۷ – ۳۱۹ )

بخاری  شریف کی روایت ہے:

"عن عائشة قالت:‌خرجت ‌سودة بنت زمعة ليلا، فرآها عمر فعرفها، فقال: إنك والله يا سودة ما تخفين علينا، فرجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، وهو في حجرتي يتعشى، وإن في يده لعرقا، فأنزل عليه، فرفع عنه وهو يقول: (قد أذن الله لكن أن تخرجن لحوائجكن)."

(کتاب النکاح، باب116،خروج النساء لحوائجھن، ج: 3، ص:2381، ط: مکتبة البشری)

"یعنی حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں: کہ(پردہ کاحکم نازل ہونے کےبعد) رات کے وقت حضرت سودہ بنت زمعہ (رضی اللہ عنہا)باہرنکلیں،توحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نےانہیں دیکھ کر پہچان لیا،اوران سے کہا:کہ ’’سودہ! آپ ہم سے نہیں چھپ سکتیں،چنانچہ وہ نبی(ﷺ)کےپاس آئیں،اوراس بات کاذکرکیا،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:کہ رسول اللہ(ﷺ)اس وقت میرے حجرے میں رات کاکھاناتناول فرمارہے تھے،اورآپ کےہاتھ میں ہڈی تھی،آپ پروحی نازل ہوئی ،جب وحی کی کیفیت آپ سے ختم ہوئی توآپ نے فرمایا:’’قداذن الله لكن ان تخرجن لحوائجكن‘‘اپنی ضرورت کےلیے نکلنےکی اللہ نےتمہیں اجازت دےدی ہے۔"

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144510101043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں