بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا لڈو ’’نردشیر‘‘ اور ’’شطرنج‘‘ کے حکم میں ہے؟


سوال

 کیا لڈو ’’نردشیر‘‘ اور ’’شطرنج‘‘ کے حکم میں ہے؟ مطلب لڈو بھی اسی قبیل میں سے ہے یا نہیں؟ کیونکہ دونوں میں مشابہت پائی جاتی ہے کہ دونوں میں گٹی اور گتہ نما چیز ہوتی ہے اور خانے بنے ہوتے ہیں اور دونوں میں پانسا پھینکا جاتا ہے جس پر نمبرات ہوتے ہیں پانسے سے جتنے نمبر آئیں ان نمبروں کے مطابق گوٹی آگے بڑھائی جاتی ہے اور دونوں گیم بغیر ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کے استعمال کے صرف قسمت کی بناء پر کھیلے جاتے ہیں؟

جواب

حدیث مذکور میں ’’النرد‘‘ کا ذکر اس وقت کے معروف عجمی کھیل کی وجہ سے ہوا ہے، جب کہ فقہاء اور شارحینِ حدیث کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جو حکم ’’نرد‘‘ کا ہے، وہ ہر اس کھیل کا ہے جو اللہ کے ذکر سے غافل کردے۔

’’لڈو‘‘ کھیلنے والوں کا عموماً اس میں اس درجہ کاانہماک ہوتا ہے  کہ نماز و دیگر امور میں غفلت ہوجاتی ہے، اور اس بے مقصد کھیل میں قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہی ہے، نیز ایسے کھیلوں میں انہماک کی وجہ سے دل ودماغ اکثر اوقات ان ہی چیزوں کی طرف متوجہ رہتاہے اور خدا کی یاد سے غافل رہتاہے، لایعنی امور میں ایسا انہماک شرعاً ناپسندیدہ ہے، مسلمان کا دل ودماغ ہر وقت یادِ خدا  اور آخرت کی تیاری میں مشغول رہنا چاہیے، اور وقت کو با مقصد کاموں میں  لگانا چاہیے جن میں دینی و دنیوی یا کم از کم دنیوی فائدہ ہو، لہذا لڈو کھیلنے میں اگر جوا نہ بھی ہو تو ایسے بے مقصد اور لایعنی کھیلوں سے بہرصورت اجتناب کرناچاہیے۔ اور اگر جوا ہو تو اس کے ناجائز ہونے میں شبہ ہی نہیں۔

الہدايۃ فی شرح بدايۃ المبتدی میں ہے:

"قال: "ويكره ‌اللعب ‌بالشطرنج والنرد والأربعة عشر وكل لهو"؛ لأنه إن قامر بها فالميسر حرام بالنص وهو اسم لكل قمار، وإن لم يقامر فهو عبث ولهو. وقال عليه الصلاة والسلام: "لهو المؤمن باطل إلا الثلاث: تأديبه لفرسه، ومناضلته عن قوسه، وملاعبته مع أهله" وقال بعض الناس: يباح ‌اللعب ‌بالشطرنج لما فيه من تشحيذ الخواطر وتذكية الأفهام، وهو محكي عن الشافعي رحمه الله. لنا قوله عليه الصلاة والسلام: "من لعب بالشطرنج والنردشير فكأنما غمس يده في دم الخنزير" ولأنه نوع لعب يصد عن ذكر الله وعن الجمع والجماعات فيكون حراما لقوله عليه الصلاة والسلام: "ما ألهاك عن ذكر الله فهو ميسر" ثم إن قامر به تسقط عدالته، وإن لم يقامر لا تسقط؛ لأنه متأول فيه. وكره أبو يوسف ومحمد التسليم عليهم تحذيرا لهم، ولم ير أبو حنيفة رحمه الله به بأسا ليشغلهم عما هم فيه."

(كتاب الكراهية، مسائل متفرقة، 4/ 380، ط:دارإحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101953

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں