کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ہونے کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی تھے یا نہیں؟
حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریاست اور حکومت تو تھی لیکن آپ اصطلاحی معنوں میں بادشاہ نہیں تھے، اس لیے کہ بادشاہ وہ ہوتا ہے جو تمام چیزوں کو اپنی ملکیت سمجھتا ہےاور جس طرح چاہے خرچ کرتاہے اور بادشاہوں کے اوصاف میں ظلم بھی ہے، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بادشاہ ہونے کا اطلاق درست نہیں ہے۔
معارف القرآن (مولانا ادریس کاندھلوی) میں ہے:
’’ازالۃ الخفاء میں حضرت شاہ ولی الله قدس اللہ سرہ نے خلیفہ اور بادشاہ میں فرق کے موضوع پر کلام کرتے ہوئے فرمایا :ایک بار حضرت عمر نے طلحہ ، زبیر، کعب احبار اور سلمان فارسی سے دریافت کیا کہ بتاؤ خلیفہ اور بادشاہ میں کیا فرق ہے؟ حضرت سلمان نے کہا: خلیفہ وہ ہے جو رعیت میں عدل کرے اور مال غنیمت برابر تقسیم کرے اور رعایا پر اس طرح شفقت کرے جیسے اپنے اہل و عیال پر کرتا ہو، کعب احبار کہنے لگے میرا خیال تو یہ تھا کہ یہ معنی اس مجلس میں میرے علاوہ شاید کوئی اور شخص نہ جانتا ہو ۔
سلیمان بن ابی العوجاء سے روایت ہے کہ ایک روز عمر فاروق اپنی مجلس میں یہ فرمانے لگے کہ میں نہیں جانتا کہ میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ ؟حاضرین مجلس میں سے ایک شخص بولا: اے امیر المؤمنین خلیفہ اور بادشاہ میں بین فرق ہے اور وہ یہ کہ خلیفہ مال نہیں لیتا مگر حق کے ساتھ اور خرچ نہیں کرتا مگر حق کے ساتھ اور آپ الحمد للہ ایسے ہی ہیں ،اس کے برعکس بادشاہ ظلم کرتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے لے لیتا ہے اور جسے چاہے دیتا ہے ( اور خدا کے فضل سے آپ ایسے نہیں ہیں یہ سن کر آپ خاموش ہو گئے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ رونے لگے بعض روایات میں ہے کہ امیر معاویہ جب منبر پر بیٹھتے تو یہ کہا کرتے، خلافت نہ مال جمع کرنے کا نام ہے اور نہ خرچ کرنے کا ، بلکہ خلافت اس کا نام ہے کہ حق پر عمل کرے اور فیصلے میں عدل کرے اور لوگوں کو حکم الہی پر قائم کرے‘‘ ۔
(ج:7، ص:38، ط: مکتبہ المعارف، دارالعلوم شہدادپور، سندھ)
فتح الباری میں ہے:
"عن الزهري قال أتى النبي صلى الله عليه وسلم ملك لم يأته قبلها فقال:إن ربك يخيرك بين أن تكون عبدا نبيا أو ملكا نبيا، قال فنظر إلى جبريل كالمستشير له، فأومأ إليه أن تواضع، فقال:بل عبدا نبيا. قال فما أكل متكئا اهـ. وهذا مرسل أو معضل، وقد وصله النسائي من طريق الزبيدي، عن الزهري، عن محمد بن عبد الله بن عباس قال: كان ابن عباس يحدث، فذكر نحوه."
(كتاب الأطعمة، باب الأكل متكئا، ج:9، ص:541، ط: دار المعرفة)
الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان -ابن تیمیہ -میں ہے:
"الأنبياء منهم عبد رسول ومنهم نبي ملك :
ونظير هذا انقسام الأنبياء عليهم السلام إلى عبد رسول، ونبي ملك، وقد خير الله سبحانه محمداصلى الله عليه وسلم، وبين أن يكون عبدا رسولا وبين أن يكون نبيا ملكا، فاختار أن يكون عبدا رسولا، فالنبي الملك، مثل داود وسليمان ونحوهما عليهم الصلاة والسلام...والمقصود هنا، أن العبد الرسول، هو أفضل من النبي الملك، كما أن إبراهيم وموسى وعيسى ومحمدا عليهم الصلاة والسلام، أفضل من يوسف، وداود، وسليمان عليهم السلام، كما أن المقربين السابقين، أفضل من الأبرار أصحاب اليمين، الذين ليسوا مقربين سابقين."
(ص:35، ط:دار البيان، دمشق)
الطبقات الکبری میں ہے:
"عن سلمان أن عمر قال له: أملك أنا أم خليفة؟ فقال له سلمان: إن أنت جبيت من أرض المسلمين درهما أو أقل أو أكثر ثم وضعته فى غير حقه فأنت ملك غير خليفة. فاستعبر عمر.
قال: أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثنى عبد الله بن الحارث عن أبيه عن سفيان بن أبى العوجاء قال: قال عمر بن الخطاب: والله ما أدرى أخليفة أنا أم ملك، فإن كنت ملكا فهذا أمر عظيم. قال قائل: يا أمير المؤمنين إن بينهما فرقا، قال: ما هو؟ الخليفة لا يأخذ إلا حقا ولا يضعه إلا في حق، فأنت بحمد الله كذلك، والملك يعسف الناس فيأخذ من هذا ويعطى هذا. فسكت عمر."
(الطبقة الأولي أهل البدر، ج:3، ص:285، ط:الخانجي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603100842
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن