(1)میری شادی کو چودہ سال ہوگئےہیں ، میں ہاؤس وائف ہوں ،میرے شوہر پرائیوٹ جاب کرتے ہیں،سوال یہ ہے کہ کیا مجھ پر میرے والدین کاحق ہےکہ وہ مجھ سے مالی تعاون کی پیشکش کریں ؟
جبکہ میرے پا س جو کچھ بھی ہے وہ سب میرے شوہر کا دیا ہوا ہے،اور میری ساری ضروریات خود میرے شوہر ہی پورے کرتے ہیں ایسے میں کیا مجھے اپنے والدین کی مالی امداد کرنی چاہیے اور میرا گھر بھی کرایہ کا ہے،اور اگر کبھی اپنا ذاتی مکان لے بھی لیا تو بھی کیا مجھ پر والدین کی مالی امداد فرض ہے؟اور اگر مستقبل میں کوئی جاب شروع کردی تو کیا اس وقت میں بھی مجھ مالی تعاون لازم ہوگا۔
اورکیا مالی تعاون کے ساتھ جسمانی خدمت بھی مجھ پر فرض ہے ؟کیونکہ میرے بھی بچے ہیں اور اپنے گھر کا کام بھی میری ذمہ داری ہے روز آنا جانا بھی بہت مشکل ہے،اور میرے والدین میرے بڑے بھائی کے ساتھ رہتے ہیں میرے ابو کا اپنا ذاتی مکان ہےاس صورت میں اگر ابو یا بھائی مجھ سے تقاضہ کریں کہ سب اولاد برابر ہوتی ہے تم بھی گھر خرچ میں حصہ ڈالو توکیا میں اپنے شوہرسے ان کے لئے پیسے مانگو ں ؟
کیا سسر داماد سے پیسے مانگنے کا حق رکھتا ہے؟
(2)دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا شوہر کے نانا محرم ہوتے ہیں یا نامحرم؟
وضاحت:
والد صاحب کی اپنی نوکری ہے جو ان کی آمدن کا ذریعہ ہے،اسی طرح بھائی بھی جاب کرتا ہے،جبکہ میں نہ جاب کرتی ہوں نہ میری آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ ہے۔
صورتِ مسئولہ میں چونکہ سائلہ کے والد کی اپنی نوکری ہے جو ان کی آمدنی کا ذریعہ ہے،گھر اپنا ہے،اور سائلہ خود اپنے شوہر کی کفالت میں ہے،ایسے حالات میں سائلہ کے باپ اور بھائی کاسائلہ سے مالی تعاون کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے ،خصوصا ایسی صورت حال میں جب کہ بیٹی کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
جہاں تک جسمانی خدمت کی بات ہےاگر والدین کی خدمت کی ضرورت ہو،اور ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہو،اور نہ ہی وہ خود کسی خادم کا بندوبست کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں،اور سائلہ کے علا وہ کوئی اور خدمت کرنے والا نہ ہو،تو ایسی صورت میں سائلہ پر والدین کی خدمت واجب ہوگی،اور اگر انہیں خدمت کی ضرورت نہ ہو یا خود خادم کابندوبست کرسکتے ہوں ،یا سائلہ کے علاوہ ان کی خدمت کرنے والے موجود ہوں ،تو سائلہ پر والدین کی جسمانی خدمت واجب تو نہ ہوگی،البتہ اگر سائلہ اس طور پر والدین کی خدمت کرتی رہے کہ اس کا اپنا گھر متاثر نہ ہو اور شوہر کی حق تلفی نہ ہو تو وہ اجر وثواب کی مستحق ہوگی۔
سسرکا داماد کے مال میں کوئی حق نہیں ہے ،اور نہ داماد سے کوئی رقم مانگ سکتا ہے۔
(2) شوہر کا نانا (ساس کا والد) محرم ہے ۔
فتح القدیر میں ہے :
"وعلى الرجل أن ينفق على أبويه وأجداده وجداته إذا كانوا فقراء وإن خالفوه في دينه) أما الأبوان فلقوله تعالى {وصاحبهما في الدنيا معروفا}........وشرط الفقر لأنه لو كان ذا مال، فإيجاب نفقته في ماله أولى من إيجابها في مال غيره."
(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:4، ص:416، ط:دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح ورجح الزيلعي والكمال إنفاق فاضل كسبه.... (النفقة لأصوله) ولو أب أمه ذخيرة (الفقراء) ولو قادرين على الكسب والقول لمنكر اليسار والبينة لمدعيه (بالسوية) بين الابن والبنت."
(کتاب النفقة،مطلب في نفقة الأصول،ج:3 ص:621 ط:سعید)
وفیه ایضا:
"و) لها (السفر والخروج من بيت زوجها للحاجة؛ و) لها (زيارة أهلها بلا إذنه ما لم تقبضه) أي المعجل، فلا تخرج إلا لحق لها أو عليها لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة، ولكونها قابلة أو غاسلة لا فيما عدا ذلك.
(قوله: فلاتخرج الخ) وکذا فیما لو أرادت حجّ الفرض بمحرم،أو کان أبوها زمنًا مثلًا یحتاج إلی خدمتها ولو کان کافرًا أو كانت لها نازلة ولم يسأل لها الزوج عنها من عالم فتخرج بلا إذنه كله."
(کتاب الطلاق ،باب المھر،ج:3 ،ص:146 ،ط:سعید)
فتح القدیر میں ہے:
"و المحرم من لاتجوز المناكحة بينه و بينها على التأبيد بنسب كان أو بسبب كالرضاع و المصاهرة لوجود المعنيين فيه، و سواء كانت المصاهرة بنكاح أو سفاح في الأصح لما بينا."
(كتاب الكراهية ، فصل في الوطء والنظر واللمس،ج: 10 ص :34ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101035
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن