بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اپنے مرحومین کو قرآن پاک اور دیگر اذکار وغیرہ پڑھ کر بخشا جا سکتا ہے؟


سوال

مردو ں کو جو قران پاک وغیرہ پڑھ کر ثواب بخشا جاتاہے،اس ثبوت کہاں سے ہے؟اور  پڑھا ہوا مردوں کا پہنچتا ہے یا نہیں ؟وضاحت فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت،اسی طرح  ذکر و اذکار ،نفل نماز، روزہ، طواف، عمرہ و حج، قربانی، نیز غرباء ومساکین پر صدقہ خیرات وغیرہ  کے ذریعے سے بھی  مرحومین کو  ثواب پہنچایا جاسکتا ہے، یہ شرعاً  درست ہے،  اور  مرحومین تک نہ صرف  اس کا  ثواب پہنچتاہے،  بلکہ  پڑھنے والوں یا صدقہ کرنے والوں کو بھی برابر ثواب ملتا ہے، اور کسی کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے، اور یہی اہل سنت و الجماعت  کا مسلک ہے،اور ایصالِ ثواب کا ثبوت و تعلیمات خود احادیث میں وارد ہوئی ہیں، چنانچہ اس کے متعلق ذیل میں کچھ نصوص ذکر کیے جاتے ہیں:

شعب الإيمان للبيهقي  میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله ﷺ من حج عن والدیه بعد وفاتهما کتب له عتقاً من النار، وکان للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غیر أن ینقص من أجور هما شیئاً".

(ج:6، ص:204، رقم: 7912، ط:دارالکتب العلمیة۔بیروت)

یعنی  حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ:  جو شخص اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کرتا ہے، تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے،  اور جن دونوں (والدین) کی طرف سے حج کیا گیا ہے انہیں کامل حج کا ثواب ملتاہے، نہ حج کرنے والے کے  اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے اور نہ ہی جن کی طرف سے حج کیا گیا ہے ان کے اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے۔

وفيه أيضاً:

"عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده قال: قال رسول الله ﷺ لأبي: إذا أردت أن تتصدق صدقةً فاجعلها عن أبويك؛ فإنه یلحقهما أجرها ولاینتقص من أجرك شیئاً".

(ج:6، ص:204، رقم:7911، ط:دارالکتب العلمیة۔بیروت)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جب تم صدقہ کرنا چاہو ، تو اپنے والدین کی طرف سے کرو؛ کیوں کہ اس کا ثواب ان کو ملتا ہے اور تمہارے اجر میں بھی کمی نہیں کی جاتی۔

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: إذا تصدق بصدقة تطوعاً أن یجعلها عن أبویه فیکون لهما أجرها، ولاینتقص من أجره شیئاً". رواه الطبراني في الأوسط. وفیه خارجة بن مصعب الضبي وهو ضعیف".

(باب الصدقة علی المیت، ج:3، ص:138/139، رقم:4769، ط:دار الكتب العلمية۔بيروت)

یعنی کوئی شخص نفلی صدقہ والدین کی طرف سے کرے تو  ان دونوں کو ثواب ملے گا، اور صدقہ کرنے والے کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔

البحر الرائق میں ہے:

"‌فإن ‌من ‌صام ‌أو ‌صلى ‌أو ‌تصدق ‌وجعل ‌ثوابه ‌لغيره ‌من ‌الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع." 

(كتاب الحج، باب الحج عن الغير، ج:3، ص:63، ط:دار الكتب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102877

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں