بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آپریشن کے کتنے عرصے بعد بیوی سے جماع کرسکتے ہیں ؟


سوال

بڑے آپریشن والی عورت سے کتنے دن بعد ہم بستری کر سکتے ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر کسی عورت کے بذریعہ آپریشن یا بغیر آپریشن کے بچے کی ولادت ہو، ولادت کے بعد جب تک عورت کو نفاس کاخون جاری ہو اس وقت تک اس سے ہم بستری کرنا منع ہے، نفاس ختم ہونے کے بعد ہم بستری کرنا جائز ہے، جس کی تفصیل ذیل میں درج کی جارہی ہے، تاہم اگر نفاس کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی آپریشن کی وجہ سے کوئی  ماہر طبیب یا ڈاکٹر  کسی عذر کی بنا پر کچھ عرصے کے لیے جماع سے احتیاط کا مشورہ دے تو اس کی بات پر عمل کرنا چاہیے۔نفاس کی تفصیل درج ذیل ہے:

 بچہ پیدا ہونے کے بعد عورت کے رحم سے جو خون آتا ہے اس کو ’’نفاس‘‘ کہتے ہیں،  نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے، اور کم سے کم مدت  کی کوئی حد نہیں،  اگر کسی کو ایک آدھ گھڑی خون آکر بند ہو جائے تو وہ بھی نفاس ہے،  اگر کسی عورت کو بچہ کی ولادت کے بعد چالیس دن کے اندر اندر خون آئے تو وہ نفاس کا ہے،  اور چالیس دن کے اندر اندر خون آنا بند ہوجائے تو وہ پاک سمجھی جائے گی، چالیس دن یا سوا مہینہ  تک ناپاک نہیں شمار ہوگی۔ اور چالیس دن سے بڑھ جائے تو اگر اس کا پہلا بچہ ہے تو چالیس دن نفاس کا خون ہوگا، اور اس کے بعد آنے والا خون بیماری کا کہلائے گا، اس میں نماز وغیرہ پڑھنی ہوں گی، اور اگر اس کا پہلے سے کوئی بچہ ہے تو اس کی جتنے دن خون آنے عادت ہے اتنے دن کا خون نفاس شمار ہوگا اور باقی بیماری کا خون شمار ہوگا۔

اگر نفاس کا خون چالیس دن پورے ہونے پر  بند ہو تو  شوہر کے لیے بیوی سے ہم بستری کرنا جائز ہوگا، اگرچہ غسل نہ کیا ہو، تاہم بہتر یہی ہے کہ غسل کرنے کے بعد ہم بستری کی جائے۔

اور اگر اس عورت کی پہلے سے نفاس کی عادت متعین ہے اور وہ مکمل ہوجانے کے بعد خون بند ہوا ہے تو عورت کے غسل کرنے کے بعد یا ایک فرض نماز کا وقت گزرجانے کے بعد  شوہر کے لیے ہم بستری کرنا جائز ہوگا۔

فتاوى ہنديہ میں ہے :

" أقل النفاس ما يوجد ولو ساعةً، وعليه الفتوى، وأكثره أربعون، كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس، هكذا في المحيط".

(ج:1،ص:37،ط:رشیدیہ)

البحر الرائق میں ہے :

"اعلم أن هذه المسألة على ثلاثة أوجه؛ لأن الدم إما ينقطع لتمام العشرة أو دونها لتمام العادة أو دونهما ففيما إذا انقطع لتمام العشرة يحل وطؤها بمجرد الانقطاع ويستحب له أن لايطأها حتى تغتسل، وفيما إذا انقطع لما دون العشرة دون عادتها لايقربها وإن اغتسلت ما لم تمض عادتها، وفيما إذا انقطع للأقل لتمام عادتها إن اغتسلت أو مضى عليها وقت صلاة حل وإلا لا وكذا النفاس إذا انقطع لما دون الأربعين لتمام عادتها، فإن اغتسلت أو مضى الوقت حل وإلا لا، كذا في المحيط".  

(ج:1،ص:213،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101000

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں