بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کتاب النوازل میں ذبیحہ کے متعلق مسئلہ کا مفہوم


سوال

۱۔ جان کے بدلے جان کے طور پر جو بکرا صدقہ کیا جاتا ہے شرعا یہ عمل جائز ہے یا ناجائز ؟ نیز اس صورت میں مذبوحہ حلال ہوگا یا حرام ؟ اگر حلال ہوگا تو اس سے اغنیاء اور فقراء دونوں کھاسکتے ہیں یا محض فقراء؟  کتاب النوازل مؤلفہ مفتی سلمان صاحب منصورپوری نے جلد نمبر: ۱۴، صفحہ نمبر:۴۸۲ میں مذبوحہ کو ’’امداد الفتاوی‘‘ کے حوالہ سے میتہ کے حکم میں لکھا ہے کیا’’ امداد الفتاوی‘‘ سے واقعی ایسا مفہوم ہوتا ہے؟

۲۔نیز جان کے بدلے جان کی نیت سے،بیماری سے شفاء یابی کی نیت سے، یا کسی حادثے کے ٹل جانے پر بطور شکرانہ  ذبح کرنے کا ایک ہی حکم ہے یا ان میں کوئی فرق ہے ؟جواب عنایت فرماکر ممنون و مشکور فرمائیں۔

جواب

۱۔صورتِ مسئولہ میں اگر  جان کے بدلے جان  کے طور پر جانور اس نیت سے ذبح کیا جائے کہ جانور کو  ذبح کرنا اور خون بہانا تو   محض  اللہ کی رضا کے لیے ہو، تو یہ صدقہ ہے، اور پھر اس صدقہ  کے ثواب سے اللہ تعالیٰ  کی رحمت کو متوجہ کرکے مریض کی شفاء یابی کا حصول  مقصد ہو تو ایسی صورت میں ذبح کیا گیا جانور حلال ہے، میتہ اور مردار کے حکم میں نہیں ہے۔

جیسا کہ    کفایت المفتی میں مفتی کفایت اللہ صاحبؒ  نے  لکھا ہے:

’’سوال: جانور کو اس نیت سے ذبح کیا جائے کہ جان کا بدلہ جان ہوجائے، جانور کی جان چلی جائے اور انسان کی جان بچ جائے یعنی خداوند تعالیٰ جانور کے جان قبول فرما کر بندہ کی جان نہ لیں درست ہے یا نہیں؟

جواب:یہ خیال تو بے اصل ہے، اباحت صرف اس خیال سے ہے کہ اللہ کے واسطے جا ن کی قربانی دی جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ جیسے صدقۂ مالیہ اللہ کی رحمت کو متوجہ کرتا ہےاسی طرح یہ قربانی جالبِ رحمت ہوجائے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مریض کو شفا عطا فرمائے۔‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں لکھتےہیں:

’’ زندہ جانورصدقہ کردینا زیادہ بہتر ہے، شفائے مریض کی غرض سے ذبح کرنا اگر محض لوجہ اللہ ہو تو مباح تو ہے لیکن اصل مقصد بالاراقۃ صدقہ ہونا چاہیے نہ کہ فدیۂ جان بجان۔‘‘

(کتاب الاضحیہ والذبیحہ، ج: ۸، ص:۲۵۲، ط:دارالاشاعت)

  اور اگر جانور ذبح کرنے اور خون بہانے کا مقصد   محض اللہ کی رضا نہ ہو بلکہ  نیت ہی یہ ہو کہ اس جانور کو ذبح کرکے اس کی جان چلی جائے اور اس کے بدلے   مریض شفاپاجائے اور زندہ بچ جائے  تو ایسا ذبیحہ غیراللہ کے نام پر ذبح کرنے کے حکم میں ہے، اور ایسے ذبیحہ  کے لیے دلیلِ شرعی نہ ہونے کی وجہ سے  حلال نہیں ہے۔ چنانچہ امداد الفتاویٰ  سے مستفاد  مفہوم(میتہ کا حکم)  مندرجہ بالا ثانی الذکر ذبیحہ کے لیے ہے، اول الذکر ذبیحہ حلال ہے ، میتہ کے حکم میں نہیں ہے۔

بغرضِ سہولت امداد  الفتاویٰ میں مذکورہ سوال اور اس کا جواب  بھی نقل کیا جاتاہے، چنانچہ امداد الفتاویٰ میں ہے:

’’ سوال: صدقہ میں علاوہ قربانی اور عقیقہ کے جان کے عوض جان ذبح کرنا جائز ہے یا ناجائز؟اگر جائز ہے تو کون سی روایت سے اور ناجائز ہے تو کون سی دلیل سے؟

جواب: اس کی کوئی اصل نہیں۔دلیل یہی ہے کہ اراقۃ دمِ قربت غیر مدرکہ بالقیاس ہے، اس کے لیے نص کی ضرورت ہے اور نص اس باب خاص میں وارد نہیں۔‘‘

(کتاب البدعات، ج:۵، ص: ۳۱۴، ط: دارالعلوم کراچی)

۲۔  بیماری سے شفایاب ہونے یا کسی حادثے کے ٹل جانے پر بطورِ شکرانہ اللہ تعالیٰ کے نام پر  جانورذبح کرنا جائز ہے، اور یہ جانور صدقہ شمار ہوگا، اور اس کا گوشت صدقہ  غرباء میں تقسیم کرنے کی صورت میں صدقہ کا ثواب ملے گا۔

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

’’جانور خدا کے نام سے ذبح کرکے اس کے گوشت کو صدقہ کرلیا جائے یہ جائز ہے۔ کسی طرح کی اس میں قباحت نہیں ہے۔ البتہ ثواب صدقہ کا ملے گا۔ ذبح کرنے اور خون بہانے کا کوئی ثواب علیحدہ نہیں۔ ذبح کرنے کا اور خون بہانے کا ثواب یا تو زمین ِحرم میں ہوتاہے یا بقرا عید کے موقع کا۔ عام طور پر خون بہانا کوئی زائد ثواب نہیں رکھتا۔‘‘

(شکار اور حلال حرام جانوروں کا بیان، ج:۹،ص: ۶۶)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله وما ‌أهل ‌لغير ‌الله به أي ما ذبح فذكر عليه اسم غير الله فهو حرام لأن الله تعالى أوجب أن تذبح مخلوقاته على اسمه العظيم، فمتى عدل بها عن ذلك وذكر عليها اسم غيره من صنم أو طاغوت أو وثن أو غير ذلك من سائر المخلوقات فإنها حرام بالإجماع."

(سورة المائدة، آية: 3، ج:3،ص:13، ط: دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں