بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کتاب لکھنے والے کو ’’کتاب کا خالق‘‘ کہنے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص ایک کتاب لکھتا ہے تو اس کے لیے اگر ایسے بولا جائے کہ (اس کتاب کے خالق) فلاں ہیں،  کیا کسی انسان کے  لیے ایسا بولنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

’’خالق‘‘ عربی زبان کے لفظ ’’خلق‘‘ سے بنا ہے، اور اس کے دو معنیٰ آتے ہیں، ایک عدم سے وجود دینا اور دوسرا کسی چیز کو ترتیب دینا۔ ’’الخالق‘‘ اور ’’الخلاق‘‘ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں، لیکن ان دونوں ناموں میں سے ’’الخلاق‘‘ اور "الخالق " صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے خاص ہیں، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو بھی  ’’الخلاق،الخالق ‘‘ کہنا جائز نہیں ہے، جب کہ  ’’خالق‘‘(بغیر الف  و لام کے ) ان صفاتی ناموں میں سے ہے جن کا اطلاق مخلوق پر کرنا بھی جائز ہے،  لہٰذا   کتاب وغیرہ کسی چیز کو مرتب کرنے کی وجہ سے  انسان کو اس چیز کا خالق کہنے کی  گنجائش ہوگی، گو بہتر یہی ہے کہ اس کے لیے "مصنف" یا "مؤلف" کا لفظ استعمال کیا جائے۔

لسان العرب (10/ 85):

"خلق: الله تعالى و تقدس الخالق والخلاق، وفي التنزيل: هو الله الخالق البارئ المصور ؛ وفيه: بلى وهو الخلاق العليم ؛ وإنما قدم أول وهلة لأنه من أسماء الله جل وعز. الأزهري: ومن صفات الله تعالى الخالق والخلاق ولا تجوز هذه الصفة بالألف واللام لغير الله عز وجل، وهو الذي أوجد الأشياء جميعها بعد أن لم تكن موجودة، وأصل الخلق التقدير، فهو باعتبار تقدير ما منه وجودها وبالاعتبار للإيجاد على وفق التقدير خالق. والخلق في كلام العرب: ابتداع الشيء على مثال لم يسبق إليه: وكل شيء خلقه الله فهو مبتدئه على غير مثال سبق إليه: ألا له الخلق والأمر ... فتبارك الله أحسن الخالقين . قال أبو بكر بن الأنباري: الخلق في كلام العرب على وجهين: أحدهما الإنشاء على مثال أبدعه، والآخر التقدير؛ وقال في قوله تعالى: فتبارك الله أحسن الخالقين ، معناه أحسن المقدرين؛ وكذلك قوله تعالى: وتخلقون إفكا؛ أي تقدرون كذبا. وقوله تعالى:أني أخلق لكم من الطين خلقه؛ تقديره، ولم يرد أنه يحدث معدوما."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201611

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں