بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کتاب’’غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ‘‘ کے بارے میں ایک سوال


سوال

مفتی طارق امیر خان صاحب  کی کتاب ’’غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ‘‘ کے متعلق علماء کیا کہتے ہیں؟جس میں مندرجہ ذیل ایک سوچھ(۱۰۶)  احادیث کو من گھڑت کہا گیا ہے۔ ان اقوال کا تذکرہ ’’غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ‘‘ نامی کتاب میں ہے، جو سات جلدوں میں ہے، اس کتاب پر  مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمہ اللہ  کی  تقریظ ہے اور  مفتی  طارق امیر  خان صاحب کی تحقیق  ہے۔ملاحظہ فرمائیں اور حیرت کے سمندر میں ڈوب جائیں: 

۱۔ ایک بڑھیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا پھینکا کرتی تھی ۔(من گھڑت روایت ہے)۔۲۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ ’’شین‘‘ کو ’’سین ‘‘پڑھا کرتے تھے اور ان کو اذان دینے سے روکا گیا تو اس  دن صبح سورج طلوع نہیں ہوا۔( دونوں روایات من گھڑت ہیں )۔۳۔ اویس   قرنی رحمہ اللہ کااپنے دانت مبارک توڑنے والی روایت (من گھڑت ہے)۔ ۴۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا زنا کرنے والا واقعہ بھی (من گھڑت ہے)۔۵۔ وطن کی محبت ایمان  میں سےہے۔(من گھڑت روایت ہے)۔ ۶۔جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچان لیا۔( من گھڑت روایت ہے)۔ ۷۔ عالم کے پیچھے ایک نماز چار ہزار چار سو چالیس نمازوں کے برابر ہے۔(روایت من گھڑت ہے)۔ ۸۔ علم حاصل کرو، چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ (عربی محاورہ ہے، حدیث نہیں)۔۹۔ دورانِ نماز حضرت   علی رضی اللہ عنہ کے بدن سے تیر نکالنے والا مشہور قصہ( من گھڑت ہے)۔ ۱۰۔ جس کا کوئی پیر نہ ہو تو اس کا پیر شیطان ہے۔( من گھڑت ہے)۔ ۱۱۔ ہاروت و ماروت اور زہرہ کا قصہ (من گھڑت ہے)۔۱۲۔ ماہِ صفر، یا ماہ ِرمضان کی بشارت دینے پر جنت کی بشارت دینا (غلط ہے ،ایسی کوئی حدیث نہیں)۔ ۱۳۔ اگر جھک جانے میں عزت کم ہو تو قیامت کو مجھ سے لے لینا۔(من گھڑت ہے )۔۱۴۔ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا،میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے کائنات کو پیدا کیا ۔(من گھڑت ہے)۔ ۱۵۔ زنا قرض ہے ، اگر تو نے اسے لیا تو ادا تیرے گھر والوں سے ہوگا۔ (من گھڑت ہے)۔ ۱۶۔ حضرت بلال  رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھ کر دمشق سے مدینہ آنا ، پھر اذان دینا اور مدینہ والوں کی آہ و بکا۔ (من گھڑت قصہ ہے)۔ ۱۷۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا دعا فرمانا کہ میری امت کا حساب میرے حوالے فرما دیجیے تاکہ میری امت کو دوسری امت کےسامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔( من گھڑت ہے)۔۱۸۔ ہر نبی کو نبوت چالیس برس بعد ملی ہے۔(من گھڑت ہے)۔ ۱۹۔ درود پڑھنے پر اللہ ستر ہزار پروں والا پرندہ پیدا کریں گے ،جن کی تسبیح کا اجر درود پڑھنے والے کو ملے گا۔ (من گھڑت ہے)۔ ۲۰۔ جو شخص اذان کے وقت باتیں کرتا ہے اسے موت کے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا۔( من گھڑت ہے)۔ ۲۱۔ اللہ تعالیٰ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو معراج کےموقع پر فرمانا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں سمیت عرش پر آجائیں۔(من گھڑت ہے)۔ ۲۲۔ فجر کی سنتیں گھر میں ادا کرنے پر روزی میں وسعت، اہل ِخانہ کے مابین تنازع نہ ہونا ، اور ایمان پر خاتمہ۔( یہ فضائل بے اصل ہیں)۔ ۲۳۔ روزِ محشر باری تعالیٰ کا ارشاد ہوگا : کون ہے جو حساب دے؟ حضرت صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ کے سامنے آنے پر اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ (سنداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)۔ ۲۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جبریل علیہ السلام کا دنیا میں دس بار آنا اور دس چیزیں لے جانا۔ (سنداًنہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)۔۲۵۔ بے پردہ عورت جہنم میں بالوں کے بل لٹکائی جائے گی۔( سنداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)۔ ۲۶۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سب سے پہلے رب تعالیٰ میری نماز جنازہ پڑھیں گے۔ (من گھڑت ہے) ۔۲۷۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت کے سال ہر حاملہ عورت کے گھر لڑکے کا پیدا ہونا۔ (سنداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)۔ ۲۸۔ حضرت بلال  رضی اللہ عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر جنت میں داخل ہونا۔ (سنداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)۔ ۲۹۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: مجھے موت کا اتنا بھروسہ بھی نہیں کہ ایک طرف سلام پھیروں تو دوسری طرف بھی پھیر سکوں گا یا نہیں۔ (سنداًنہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)۔ ۳۰۔ ابو جہل کے ہاتھوں میں کنکریوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دینا۔ (سنداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)۔ ۳۱۔ دورانِ نماز والدین کی پکار پر نماز چھوڑ کر جانے والی روایت۔ (شدید ضعیف، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۳۲۔ مومن کے جھوٹے میں شفاء ہے۔ (من گھڑت) ۔۳۳۔ ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا ٹاٹ کا لباس پہننا اور باری تعالیٰ کی جانب سے ان پر سلام۔ (من گھڑت ہے)۔ ۳۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا سکرات میں جبریل سے کہنا : میری ساری امت کی سکرات کی تکلیف مجھے دے دو۔ (سنداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے) ۔۳۵۔حضرت فاطمتہ الزہراءرضی اللہ عنہاکا ایک بال ننگا تھا تو سورج طلوع نہیں ہوا۔ (بے اصل ہے) ۔۳۶۔ روز ِقیامت ایک نیکی دینے پر دو افراد کا جنت میں جانا۔ (سنداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)۔ ۳۷۔ جب کوئی نوجوان توبہ کرتا ہے تو مشرق سے مغرب تک پورے قبرستان سے چالیس دن تک اللہ عذاب کو دور کر دیتا ہے۔ (سنداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)۔ ۳۸۔معراج کا خاص راز: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنے والد ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ سے مشورہ کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات کی خاص باتوں میں سے ایک بات کا پوچھنا اور ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ کو بتانا، جس کو سن کر وہ رو پڑے۔ (یہ روایت کسی مستند، یا غیر مستند کتاب میں نہیں مل سکی) ۔۳۹۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف فرما رہے تھے، ایک اعرابی کو اپنے آگے طواف کرتے پایا جس کی زبان پر ’’یا کریم ‘‘،’’یا کریم ‘‘کی صدا تھی،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پیچھے سے’’ یا کریم ‘‘پڑھنا شروع کر دیا، جس پر اس نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرمایا کہ آپ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ (یہ واقعہ بھی کسی مستند ،یا غیر مستند روایت میں موجود نہیں)۔ ۴۰۔دو شخص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کی مخفل میں داخل ہوئے ، ایک شخص کی طرف اشارہ کیا اور کہا:اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے، اس شخص نے اقرار کیا اور کچھ امانتیں واپس کرنے کے لیے تین دن کی مہلت مانگی جس پر ابوذر غفا ری رضی اللہ عنہ نے ان کی ضمانت دی۔ (کسی بھی مستند، یا ضعیف مصدر میں اس پورے واقعہ کا کوئی حوالہ نہ مل سکا)۔ ۴۱۔ کچرا پھینکنے والی بڑھیا اور مکہ چھوڑ کر جانے والی بڑھیا۔ (دونوں روایات من گھڑت ہیں) ۔اور وہ بڑھیا جس کی خدمت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کئی  سال کرتے رہے۔( یہ روایت انتہائی ضعیف، نا قابلِ بیان ہے)۔ ۴۲۔ ایک شخص میں چار خامیاں تھیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پراس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تو اس کے باقی سب گناہ بھی چھوٹ گئے۔ (من گھڑت ہے)۔ ۴۳۔ ایک عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم لے کر جائے گی، باپ ، شوہر ، بھائی اور بیٹے کو۔ (من گھڑت ہے)۔۴۴۔ جس شخص کے یہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کا نام برکت حاصل کرنے کے لیے محمد رکھے تو وہ بچہ اور اس کا والد دونوں جنت میں جائیں گے۔(من گھڑت ہے)۔ ۴۵۔ اپنی اولاد کو رونے پر مت مارو ؛کیوں کہ بچہ کا رونا چار مہینہ لا الہ الا اللہ ہے، اور چار مہینہ تک محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، اور چار مہینہ والدین کے لیے دعا ہے۔ (من گھڑت ہے)۔ ۴۶۔ بخیل جنت میں نہیں جائے گا اگرچہ وہ عابد ہو، اور سخی جہنم میں نہیں جائے گا اگر چہ وہ فاسق ہو۔ ( من گھڑت ہے)۔ ۴۷۔ ایک گھڑی غور و فکر کرنا ایک سال کی عبادت سے زیادہ بہتر ہے۔ (یہ حدیث نہیں ہے، بلکہ حضرت سری سقطی رحمہ اللہ کا کلام ہے)۔ ۴۸۔ حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے فرمایا : اے موسی! جب میں آپ سے بات کرتا ہوں تو میرے اور آپ کے درمیان ۷۰(ستر) ہزار پردے ہوتے ہیں، لیکن امتِ محمدیہ جب افطار کے وقت دعا مانگے گی تو کوئی پردہ نہ ہوگا۔ (من گھڑت ہے)۔ ۴۹۔ شبِ قدر کے حوالے سے نوافل کی خاص تعداد، یا خاص طریقے سے نماز پڑھنے والی روایات (من گھڑت ہیں) ۔۵۰۔ تہمت کی جگہوں سے بچ کے رہو۔ (من گھڑت ہے) ۔۵۱۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ  نے اذان نہیں دی تو دن نہیں چڑھا۔( یہ بھی من گھڑت ہے) ۔۵۲۔ ابو جہل کے دروازے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوت دینے کے لیےسومرتبہ(۱۰۰) جانا ( بے سند ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف منسوب کر کے بیان نہیں کر سکتے) ۔۵۳۔ طوفانی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قافلے والوں کو دعوت دینا ۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کرسکتے)۔ ۵۴۔ایک آدمی کا راہ ِراست پر آجانا داعی کی نجات کے لیے کافی ہے ۔ ( بے سند ہے، بیان کرنا منع ہے۔ اس سے ملتی جلتی ایک روایت ہے، وہ صحیح ہے) ۵۵۔حضرت ایوب علیہ السلام کا اپنے جسم کے کیڑے کو یہ کہنا:’’ اللہ کے رزق میں سے کھا‘‘۔ (بیان نہیں کر سکتے ،مرفوعاً یہ روایت کہیں نہیں ملی) ۔۵۶۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا بستر سمیٹ دو، اب میرے آرام کے دن ختم ہو گئے۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۵۷۔ نماز مومن کی معراج ہے۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔۵۸۔ صحابی کی داڑھی کے ایک ہی بال پر فرشتوں کا کھیلنا ۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے) ۔۵۹۔ مسجد سے بال کا نکالنا ایسے ہے جیسے مردار گدھے کا مسجد سے نکالنا ۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۶۰۔ اے ابن ِآدم! ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے) ۔۶۱۔جسے اللہ ستر مرتبہ محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اسے اپنے راستے میں قبول کر لیتے ہیں ۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۶۲۔ ایک یہودی کے جنازے کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رونا ۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۶۳۔ ایک یہودی کا معراج کے واقعہ سے انکار پر پہلے عورت بن جانا، دو بچے پیدا کرنے کے بعد پھر مرد بن جانا ۔ ( بے سند ہے ،بیان نہیں کر سکتے) ۔۶۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طبیب کو یہ فرمانا: ہم ایسی قوم ہیں جو سخت بھوک کے علاوہ نہیں کھاتے، اور جب کھاتے ہیں تو پیٹ بھر کر نہیں کھاتے ۔ ( بے سند ہے ،بیان نہیں کر سکتے)۔ ۶۵۔ سلیمان علیہ السلام نے مخلوقات کی دعوت کے لیے کھانا تیار کیا جسے ایک مچھلی کھا گئی۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۶۶۔ بے نمازی کی نحوست سے بچنے کے لیے گھر کے دروازے پر پردہ ڈالنا ۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۶۷۔ بے نمازی کی نحوست چالیس گھروں تک جاتی ہے ۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۶۸۔ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے پر ایک حقب جہنم میں جلنا ۔ ایک حقب اسی(۸۰) سال کا ہے، اس کا ہر سال تین سو ساٹھ دن کا ہے، اور ہر دن دنیا کے دن کے ایک ہزار دن کے برابر ہے ۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۶۹۔ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ پیتا بچہ لے کر آئی اور کہا : اسے بھی جہاد میں لے جائیں ، لوگوں نے کہا: یہ بچہ جہاد میں کیا کرے گا ،عورت نے کہا: جب کوئی تیر آئے تو اسے آگے کر دینا ۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۷۰۔ استنجاء بیٹھنے کا طریقہ یہودی نے سنا تو اس نے ایسا ہی کیا ،اس کے دشمن نے رسہ پھینک کر گلا گھونٹنا چاہا مگر سنت کے مطابق بیٹھنے  کی وجہ سےوہ  بچ گیا تو وہ مسلمان ہو گیا ۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۷۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج میں اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کا تحفہ پیش کرنا ۔ ( بے سند ہے ،بیان نہیں کر سکتے) ۔۷۲۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہدایت اپنے ہاتھ میں رکھی ہے، اگر ہدایت آپ کے ہاتھ میں ہوتی تو میری باری نہ جانے کب آتی ۔ (بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے )۔ ۷۳۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کی قسم پر سحری کے وقت کا ختم ہوجانا ۔ (بے سند ہے ،بیان نہیں کر سکتے)۔ ۷۴۔جب کوئی مسجد میں ہوا خارج کرتا ہے تو فرشتہ اس ہوا کو منہ میں لے کر مسجد سے باہر خارج کر دیتا ہے ۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۷۵۔جب کوئی نوجوان توبہ کرتا ہے تو مشرق سے مغرب تک   ٖ پورےقبرستان سے چالیس دن تک عذاب دور کر دیا جاتا ہے ۔ (بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے) ۔۷۶۔حضرت فاطمتہ الزہراءرضی اللہ عنہا کے لیے قبر کا یہ کہنا : یہ حسب نسب کی جگہ نہیں ہے۔ ( بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۷۷۔ بسم اللہ کہہ کر گھر میں جھاڑو لگانے پر بیت اللہ میں جھاڑو لگانے کا اجر ملتا ہے ۔ (بے سند ہے، بیان نہیں کر سکتے) ۔۷۸۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جابر  رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کو زندہ کرنا۔ (بے سند، جھوٹی روایت)۔ ۷۹۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: مجھے موت کا اتنا بھروسہ  بھی نہیں کہ دوسری طرف سلام پھیرنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں۔ (یہ من گھڑت روایت ہے) ۔۸۰۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر سب سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ (یہ بےسند روایت ہے)۔ ۸۱۔بدن کے جس حصہ پر استاد کی مار پڑتی ہے،جہنم کی آگ وہاں حرام ہو جاتی ہے۔ ( یہ من گھڑت روایت ہے)۔ ۸۲۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سال اللہ تعالیٰ نے تمام حاملہ عورتوں کو بیٹوں سے نوازا ۔(یہ روایت درست نہیں ہے)۔ ۸۳۔مومن مسجد میں ایسے جیسے مچھلی پانی میں،اور منافق ایسے جیسے پرندہ پنجرے میں۔( یہ حدیث نہیں ہے)۔ ۸۴۔ ایک صحابی کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پرنابینا ہونے کی دعا کرنا، اور بینائی کا سلب ہوجانا۔(یہ بےسند روایت ہے) ۔۸۵۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کا دمشق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کرنا ،پھر مدینہ آنا، پھر اذان دینا اور مدینہ والوں کی آہ و بکا ۔(من گھڑت ہے) ۔۸۶۔حضرت بلال کا امیہ کا غلام ہو کر آٹا پیسنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مدد کرنا ۔(من گھڑت قصہ)۔ ۸۷۔بندے کا وضو کرنا اور کلمہ پڑھنا ، ہر قطرے کے بدلے فرشتہ کا پیدا ہونا اور قیامت تک کلمہ پڑھنا۔( یہ من گھڑت ہے)۔ ۸۸۔قیامت کے دن ایک قبر سے۷۰(ستر) مردے اٹھیں گے۔( من گھڑت روایت ہے، کسی کتاب میں موجود نہیں ہے)۔۸۹۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا فرمانا کہ میری امت کا حساب میرے حوالے کر دے تاکہ میری امت کو دوسری امتوں کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے ۔ ( من گھڑت ہے، بیان نہیں کر سکتے)۔ ۹۰۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تندور میں روٹی لگانا اور روٹی کا نہ پکنا۔( یہ بےسند روایت ہے، بیان نہیں کرنی چاہیے)۔ ۹۱۔ شبِ معراج میں  اللہ تعالیٰ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتوں سمیت عرش پربلانا۔( یہ من گھڑت قصہ ہے)۔۹۲۔ ایک بوڑھے کے احترام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نماز سے لیٹ ہوجانا۔( یہ من گھڑت روایت ہے، اسے بیان نہیں کرنا  چاہیے)۔ ۹۳۔ تنگ دستی کی شکایت پرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: نکاح کرو،یہاں تک کہ آپ نے اس کے چار نکاح کروا دیے ۔( یہ روایت درست نہیں ہے) ۔ ۹۴۔ ہر نبی کو نبوت چالیس سال بعد ملی ۔ (یہ من گھڑت روایت ہے)۔ ۹۵۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ  کا تنور کی آگ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رومال کی میل کچیل کو صاف کرنا اور رومال کا نہ جلنا ۔ ( شدید ضعیف ہے، بیان نہیں کر سکتے) ۔۹۶۔ عالِم کی موت، عالَم کی موت ہے۔( یہ حدیث مبارکہ نہیں ہے, بلکہ عربی مقولہ ہے)۔ ۹۷۔ دورانِ اذان گفتگو کرنے والے کو کلمہ نصیب نہیں ہوتا،ایمان ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔( یہ دونوں روایات من گھڑت ہیں)۔ ۹۸۔چالیس(۴۰)احادیث کو یاد کرنے والے کا حشر علماء و انبیاء کے ساتھ ہوگا۔( یہ روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا درست نہیں ہے)۔ ۹۹۔لوگوں کو قیامت کے دن ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا۔(یہ روایت من گھڑت ہے)۔ ۱۰۰۔ اللہ تعالیٰ بندوں سے ۷۰(ستر) ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔(یہ بے اصل روایت ہے)۔ ۱۰۱۔تکبیرِ اولٰی دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔( یہ بے سند روایت ہے)۔ ۱۰۲۔ بے عمل عورت قیامت کے دن چار محرم مردوں کو جہنم میں لے کر جائے گی۔( من گھڑت )۔ ۱۰۳۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مشرک مہمان کے پیشاب والے بستر کو اپنے ہاتھ سے دھونا۔( من گھڑت  ہے،اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے)۔ ۱۰۴۔ ایک بدو کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سےچوبیس(۲۴)  سوالات کی طویل روایت (بے سند روایت ہے) ۔ ۱۰۵۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں  ماں کی نافرمانی کی وجہ سے بیٹے کی حالتِ نزع میں کلمہ طیبہ سے محرومی کا طویل واقعہ۔( من گھڑت روایت ہے،بیان کرنا گناہ ہے)۔ ۱۰۶۔ بچے کی بسم اللہ پڑھنے پربچے کی،اس کے والدین اور استاد کی بخشش کی روایت ( من گھڑت ہے)۔

(ماخوذ ازغیر معتبر روایات کا فنی جائزہ ۔مفتی طارق امیر خان جامعہ فاروقیہ کراچی ۔ترتیب و تدوین:محمد توقیر طاہر )

نوٹ: بیان کرنا موقوف رکھا جائے، یعنی معتبر سند ملے بغیر ہر گز بیان  نہ کریں، ان روایات کی سند انتہائی جستجو کے باوجود نہیں ملی، لہذا حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  میں اہتمام و احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ کسی مستند سند کی دست یابی تک ان کے بیان کرنے کو موقوف رکھا جائے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :"مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".( ترجمہ:جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ (صحیح   بخاری:۱۰۹)

جواب

سوال میں آپ نے   کتاب’’غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ‘‘ کے حوالے سے جو ایک سوچھ(۱۰۶) احادیث    ذکرکیں ہیں، ان  تمام احادیث کی  تحقیق  کرنا تو دشوار ہے، ہم نے ان میں سے درج ذیل آٹھ  احادیث منتخب کر کے ان کی تحقیق  کی ہے:

۱۔ وطن کی محبت ایمان  میں سے ہے۔ ۲۔جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچان لیا۔۳۔ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا،میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے کائنات کو پیدا کیا ۔۴۔ ایک شخص میں چار خامیاں تھیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پراس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تو اس کے باقی سب گناہ بھی چھوٹ گئے۔  ۵۔ نماز مومن کی معراج ہے۔۶۔ ایک یہودی کے جنازے کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رونا ۔ ۷۔ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے پر ایک حقب جہنم میں جلنا ۔ ایک حقب اسی(۸۰) سال کا ہے، اس کا ہر سال تین سو ساٹھ دن کا ہے، اور ہر دن دنیا کے دن کے ایک ہزار دن کے برابر ہے۔   ۸۔مومن مسجد میں ایسے جیسے مچھلی پانی میں،اور منافق ایسے جیسے پرندہ پنجرے میں۔

مذکورہ آٹھ احادیث کی تحقیق میں ہم جس نتیجے پر پہنچے ہیں ، وہ حسبِ ترتیب درج ذیل ہے:

پہلی حدیث:’’ وطن کی محبت ایمان  میں سے ہے‘‘۔

"حُبُّ الوطن ِمن الإیمان" .( یعنی وطن سے محبت ایمان کا جز ہے)، اس قسم کی بات عوام الناس میں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر مشہور ہے، جب کہ مذکورہ الفاظ کی نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں، اس لیے کہ محدثین نے اس روایت کو موضوع( یعنی من گھڑت) قرار دیا ہے،جیساکہ "موضوعات الصغاني" میں ہے:

"ومِن الأحاديثِ الموضوعة ...قولُهم: (حُبُّ الوطن مِن الإيمان)".

 (موضوعات الصغاني، 1/2)

"المقاصد الحسنة"میں ہے:

"حديث: حُبُّ الوطن مِن الإيمان، لم أقفْ عليه، ومعناه صحيحٌ".

(المقاصد الحسنة، الباب الأول، حرف الحاء المهملة، ص:297، رقم:386، ط: دار الكتاب العربي-بيروت)

"الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة"میں ہے:

"(حديث): حُبُّ الوطن مِن الإيمان، لم أقفْ عليه".

(الدرر المنتثرة، ص:108، رقم:190، ط:عمادة شؤون المكتبات - جامعة الملك سعود، الرياض)

البتہ محدثین میں سے حافظ سخاوی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے معنی کو صحیح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:"لم أقِفْ عليه، ومعناه صحيحٌ".(روایت سے میں واقف نہ ہوسکا، البته اس کا معنی صحیح ہے)۔جب کہ دیگر محدثین نے حافظ سخاوی رحمہ اللہ کے اس قول کو قبول نہیں کیابلكه  ایمان اور وطن کی محبت کے تلازم کا انکار کیا ہے، اور ایمان کے جز ہونے کا انکار کیا ہے۔چنانچہ ملا علی قاری رحمہ اللہ "الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة"میں لکھتےہیں:

"حديث: حُبُّ الوطن مِن الإيمان ... قال السخاويُّ: لم أقِفْ عليه، ومعناه صحيحٌ. وقال المنوفيُّ: ما ادعاه مِن صحّة معناه عجيبٌ؛ إذ لا مُلازمة بين حُبّ الوطن وبين الإيمان".

(الأسرار المرفوعة، ص:180، رقم:164، ط: دار الأمانة-بيروت)

 مذکورہ  تفصیل سے معلوم ہوا کہ وطن کی محبت کو ایمان کا جز قرار دینا اور اس کی نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے۔

دوسری حدیث:’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچان لیا‘‘۔

 حدیث کی کتابوں میں تلاش کے باوجود ہمیں مذکورہ الفاظ نہیں مل سکے،البتہ امام رازی رحمہ اللہ نے "التفسيرُ الكبير"میں بغیر کسی  سند کےانہیں   ذکر کیاہے:"قال عليه الصَّلاة والسَّلام: مَن عرف نفسَه فقد عرف ربَّه".(نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:جس نے اپنے نفس کوپہچان لیا،اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا)۔تاہم اِ ن الفاظ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ثابت نہیں ہے،بلکہ یہ یحی بن معاذ رازی رحمہ اللہ کا قول ہے،چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"إنّه ليس بثابتٍ".(یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے)،حافظ صغانی رحمہ اللہ نے اِسے موضوعات میں شمار کیا ہے،حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اِ سے باطل اور بے اصل کہاہے،علامہ ابو  المظفر سمعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"أنه لا يُعرف مرفوعاً، وإنّما يُحكى عن يحيى بن معاذ الرازي، يعني ِمن قوله".(اِسے مرفوعاً نہیں پہچاناگیا،البتہ اِسے یحی بن معاذ رازی رحمہ اللہ کے قول کی حیثیت سے نقل کیاجاتا ہے)۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سند کے ساتھ ثابت نہیں ہیں، بلکہ يه یحی بن معاذر رازی رحمہ اللہ کاقول ہیں ،اس لیے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنادرست نہیں،البتہ یحی بن معاذ راز ی  رحمہ اللہ کے قول کی حیثیت سے  بیان کیاجاسکتا ہے۔

"التفسيرُ الكبير"میں ہے:

"قال عليه الصَّلاةُ والسَّلام: مَن عرف نفسَه فقد عرف ربَّه".

(التفسير الكبير، سورة المدثر، ج:30، ص:721، ط:دار إحياء التراث العربي-بيروت)

"المقاصدُ الحسنة"میں ہے:

"حديث: مَن عرف نفسَه فقد عرف ربَّه، قال أبو المُظفّر ابنُ السَّمعانيُّ: في الكلام على التحسين والتقبيح العقليِّ من القواطع أنّه لا يُعرف مرفوعاً، وإنّما يُحكى عن يحيى بن معاذ الرازي، يعني مِن قوله، وكذا قال النوويَُ: إنّه ليس بثابتٍ".

(المقاصد الحسنة، البابُ الأول، حرف الميم، ص:657، رقم:1149، ط:دار الكتاب العربي-بيروت)

"موضوعاتُ الصغاني"میں ہے:

"وَمن الأحاديثِ الموضوعةِ  ... قولُهم : (مَن عرف نفسَه فقد عرف ربَّه)" .

(موضوعات الصغاني، ص:35، رقم:28، ط:دار المامون للتراث-بيروت)

"تدريبُ الراوي"میں ہے:

"مَن عرف نفسَه فقد عرف ربَّه . كنت كنزاً لا أُعرف  ... وكُلُّها باطلةٌ لا أصلَ لها".

(تدريب الراوي، النوع الثلاثون، ج:2، ص:626، ط:دارطيبة)

تیسری حدیث:’’ میں ایک چھپاہوا خزانہ تھا،میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے کائنات کو پیدا کیا ‘‘۔

مذکورہ روایت کے مشہور الفاظ  کا ترجمہ درجِ ذیل ہے  :

’’اللہ تعالی فرماتے ہیں: میں ایک  چھپا ہوا خزانہ تھا،میں نے چاہا کہ میں پہچاناجاؤں ( تو اپنی پہچان کرانے کے لیے) میں نے مخلوق کو پیدا کیا ، (چنانچہ جب مخلوق کو پیدا کیا)تو انہوں نے  مجھے پہچان لیا‘‘۔ 

مذکورہ الفاظ کو بعض صوفیاء،  حدیثِ قدسی کے طورپر ذکر کرتے ہیں ، جب کہ ان الفاظ کی کوئی بھی سند نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، لہذا  جب تک کوئی معتبر سند نہ مل جائے ، اسے نبی کریم صلی  اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکےحدیثِ قدسی کے طور پر بیان  کرنے سے احتراز  لازم ہے ۔

البتہ اس کے مضمون سے مخلوق  کا مقصدِ تخلیق ( یعنی معرفتِ خداوندی) معلوم  ہوتا  ہے،   وہ قرآنِ کریم میں سوره الذ اريات کی  آيت:"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ" سے ثابت ہے، چنانچہ حضرت  مجاہد  رحمہ اللہ نے" لِيَعْبُدُونِ"  کی تفسیر "ليَعرِفُوني" کی ہے ، یعنی  اللہ تعالی  نے انسان اور جنات کے پیدا کرنے کا مقصد بیان فرمایا ہے کہ میں نے انسان اور جنات کو اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا ہے۔

"المقاصد الحسنة"میں ہے:

"حديث: كُنْتُ كَنْزًا لا أُعْرَفُ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ خَلْقًا، فَعَرَّفْتُهُمْ بِي فَعَرَفُونِي، قال ابنُ تيميّة: إنّه ليس مِن كلام النبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم-، ولا يُعرف له سندٌ صحيحٌ ولا ضعيفٌ، وتبعه الزركشيُّ وشيخُنا". 

(المقاصد الحسنة، الباب الأول، حرف الكاف، ص:521، رقم: 838، ط: دار الكتاب العربي – بيروت)

"كشف الخفاء ومزيل الألباس" میں ہے:

"والمشهورُ على الألسنة: كُنْتُ كَنْزًا لا أُعْرَفُ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ خَلْقًا، فبِه عرفُونِي".

(كشف الخفاء، حرف الكاف، ج:2، ص:132،رقم: 2016 ط:مكتبة القدسي – القاهرة)

"فتح القدير للشوكاني"میں ہے:

"(وما خلقتُ الجنّ والإنس إلاّ ليعبدون ) ... وقال مجاهدٌ : إنّ المعنى : إلاّ ليعرفوني. قال الثعلبيُّ : وهذا قولٌ حسنٌ؛ لأنه لو لم يخلقْهم لما عُرف وجودُه وتوحيدُه" .

(فتح القدير، سورة الذاريات، ج:5، ص:110، ط: دار ابن كثير)

چوتھی حدیث: ’’ایک شخص میں چار خامیاں تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پراُس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تو اس کے باقی سب گناہ بھی چھوٹ گئے‘‘۔

اس واقعہ کو علامہ مناوی رحمہ اللہ نے "شرح الأربعين النووية"میں درج ذیل الفاظ میں نقل فرمایا ہے:

"وقد وردَ أنّ أعرابيّاً بايع المصطفى -صلّى الله عليه وسلّم- على ترك خَصلةٍ مِن خِصالٍ كالزِّنا والسرِقة والكذِب، فقال له النبيُّ صلّى الله عليه وسلّم: دع الكذب، فصار كلَّما همَّ بِزنا أو سرِقة قال: كيف أصنعُ؟ إن فعلتُ سألني النبيُّ، فإن صدقتُه حدَّني، وإن كذبتُه فقد عاهدَني على ترك الكذِب، فكان تركُه سبباً لترك الفواحش كلِّها ".

(شرح الأربعين النووية للمناوي، ص:210، ط: المكتبة العربية السعودية، وزارة التعليم)

ترجمہ:

’’ایک اعرابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت اس شرط پر کی کہ وہ زنا،چوری اور جھوٹ میں سے صرف ایک عادت چھوڑےگا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جھوٹ چھوڑدو۔پھر جب بھی وہ زنایاچوری کا ارادہ کرتا تودل میں سوچتا:میں کیسے یہ کام کروں؟!اگر میں  کرلوں اور  بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوچھیں،اگر میں سچ بولوں تو آپ مجھ پر حدجاری کریں گے ،او راگر جھوٹ بولوں تو اس کے چھوڑنے پر تو آپ پہلےہی مجھ سے وعدہ لےچکے ہیں،اس طرح جھوٹ نہ بولنا اس کے لیے تمام بری عادتوں کے چھوڑنے کاسبب بن گیا‘‘۔

علامہ مناوی رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو بغیر کسی سند کے نقل کیا ہے،اسی طرح واقعات ومواعظ کی  مختلف کتابوں میں بھی یہ واقعہ بغیر کسی سند کے نقل کیاگیا ہے،لہذا جب تک کسی معتبر سند سے اس کاثبوت نہ مل جائے ، اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنے سے احتراز کرناچاہیے۔

پانچویں حدیث: ’’نماز مومن کی معراج ہے‘‘۔

" الصلاةُ مِعراج المؤمن"(نماز مومن کی معراج ہے)کے الفاظ عام طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے مرفوعاً بیان کیےجاتے ہیں ، لیکن  یہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے ساتھ سنداً ثابت  نہیں ہیں ، اس لیے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنادرست نہیں ہے،  البتہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کیے بغیر یوں کہاجا سکتا ہے کہ’’ نماز مومن کی معراج ہے‘‘،اس لیے کہ  بلاشبہ نماز اللہ تعالی کے دربار میں حاضری،تقرب اور رازونیاز کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

"مرقاة المفاتيح في شرح مشكاة المصابيح"میں ہے:

"أنّ الصلاة مِعراج المؤمن مِن حيثُ أنّها حالة حضور الربِّ وكمال القُرب في الحالات وأنواع الانتقالات، وهو مِن أعظم اللَّذات عند عشّاق الذات والصفات".

(مرقاة المفاتيح، كتاب الفضائل، باب في المعراج، ج:9، ص:3774، ط:دار الفكر-بیروت،لبنان)

چھٹی حدیث:’’ ایک یہودی کے جنازے کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رونا ‘‘۔

بہودی کے جنازہ کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آب دیدہ ہونے سے متعلق ہمیں حدیث کی کتابوں میں  کافی تلاش کے باوجود کوئی تفصیل نہیں ملی،  لہذا جب تک کسی معتبر سند سے یہ واقعہ  مذکورہ تفصیل کے ساتھ ثابت نہ ہو تو اسے   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا درست نہیں ۔ البتہ ’’صحیح بخاری‘‘ و’’صحیح مسلم‘‘ میں  کچھ  فرق کے ساتھ اس سے ملتا جلتا ایک  اور واقعہ ملتا ہے۔ 

’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے کہ حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہمافرماتےہیں: ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیےکھڑے ہوگئےتو آپ کےقیام کی وجہ سےہم بھی کھڑے ہوگئے،(اور)ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!یہ تو یہودی کاجنازہ ہے(آپ اس کے لیے کیوں کھڑے ہوئے؟)آپ نے فرمایا:جب تم جنازہ دیکھوتو کھڑے ہوجایاکرو۔

’’​صحیح مسلم‘‘ میں ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں: ایک جنازہ گزرا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہوگئےتو ہم (بھی) آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے،(اور)ہم نے عرض کیا:یہ یہودیہ(کاجنازہ ) ہے(آپ اس کے لیے کیوں کھڑے ہوئے؟)تو آپ نے فرمایا:بلاشبہ موت ایک گھبراہٹ والی چیز ہے(یعنی موت ایسی چیز ہے جسے دیکھ کرانسان پرگھبراہٹ طاری ہوتی ہو،لہذا) جب تم لوگ جنازہ دیکھوتو کھڑے ہوجایاکرو۔

​البتہ یہ واضح رہے کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجانے کاحکم ابتداء میں تھا،بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا،لہذا اَب  جنازہ دیکھ کر کھڑا ہونا سنت یالازم نہیں ہے ۔

"صحيح البخاري"میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما-، قال: مرَّ بنا جنازةٌ فقام لها النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- وقُمنا به، فقُلنا: يا رسولَ الله، إنّها جنازةُ يهوديٍّ، قال: إذا رأيتُم الجنازةَ فقُوموا".

(صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، ج: 2، ص: 85، رقم: 1311، ط: دار طوق النجاة)

"صحيح مسلم"میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله-رضي الله عنهما-، قال: مرَّت جنازةٌ، فقام لها رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-، وقُمنا معه فقُلنا: يا رسول الله، إنّها يهوديةٌ، فقال: إنّ الموت فَزَعٌ، فإذا رأيتُم الجنازةَ فقُوموا".

(صحيح مسلم، كتاب الجنائز، باب القيام للجنازة، ج:2، ص:660، رقم: 960، ط: دار إحياء التراث العربي – بيروت)

"فتح الباري"میں ہے:

"قوله: فقُمنا، في رواية أبي ذر: وقُمنا بالواو، وزاد الأصيليّ وكريمةُ له والضميرُ للقيام أي لأجل قيامه ... قال القرطبي: معناه أنّ الموت يفزع منه إشارةٌ إلى استعظامه، ومقصودُ الحديث أن لا يستمرَّ الإنسانُ على الغفلة بعد رُؤية الموت؛ لما يُشعِر ذلك من التساهل بأمر الموت، فمِنْ ثَمّ استوى فيه كون الميِّت مُسلماً أو غيرَمسلمٍ، وقال غيرُه: جَعلُ نفسِ الموت فَزَعاً مُبالغةً كما يقال: رجلٌ عَدْلٌ، قال البيضاويُّ: هو مَصدرٌ جرى مجرى الوصف للمُبالغة، وفيه تقدير: أي الموتُ ذو فزعٍ انتهى. ويؤيّد الثاني روايةُ أبي سلمة عن أبي هريرة بلفظ: إن للموت فزعاً. أخرجه ابن ماجه. وعن ابن عباس مثله عند البزار، قال: وفيه تنبيهٌ على أنّ تلك الحالة ينبغي لمن رآها أن يَقلَق من أجلها ويضطرِب، ولا يظهر منه عدم الاحتفال والمُبالاة". 

(فتح الباري، كتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، ج:3، ص:100، ط: دار المعرفة – بيروت)

"الدر المختار مع حاشية ابن عابدين"میں ہے:

"(ولا يقومُ مَن في المصلى لها إذا رآها) قبل وضعِها، ولا مَن مرَّتْ عليه هو المختارُ، وما ورد فيه منسوخٌ زيلعي ... (قوله: وما ورد فيه) أي: مِن قوله - صلّى الله عليه وسلّم-: إذا رأيتُم الجنازةَ فقُوموا لها، حتى تُخلفكم أو تُوضع . اهـ. ح قال النوويُّ في شرح مسلم: هو بضم التاء وكسر اللام المشدّدة: أي تصيرون وراءها غائبين عنها. اهـ. مدني (قوله: منسوخٌ) أي بما رواه أبو داودَ وابنُ ماجه وأحمدُ والطحاويُّ من طرق عن عليٍّ: قام رسولُ الله - صلّى الله عليه وسلّم - ثمّ قعد. ولمسلمٍ بمعناه، وقال: قد كان ثمّ نُسخ. شرحُ المنية" .

(الدر المختار مع حاشية ابن عابدين، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج: 2، ص: 232، ط: سعيد) 

ساتویں حدیث:’’ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے پر ایک حقب جہنم میں جلنا ۔ ایک حقب اسی(۸۰) سال کا ہے، اس کا ہر سال تین سو ساٹھ دن کا ہے، اور ہر دن دنیا کے دن کے ایک ہزار دن کے برابر ہے‘‘۔   

 مذکورہ روایت درج ذیل کتابوں میں سند کے بغیر  منقول ہے: 

۱۔ امام  ابو حامد محمد بن محمد  غزالی  رحمہ اللہ نے اسے بغیر کسی سند کے  نقل فرمایا ہے : 

​ "وقال عليه السلام: مَن ترك صلاةً حتى مضتْ وقتُها، ثمّ قضاها عذِّب في النار حقبًا، والحقبُ ثمانون سنةً، كلُّ سنةٍ ثلاثُ مائةٍ وستون يومًا، كلُّ يومٍ ألف سنة مما تعدُّون ".

ترجمہ:

’’حضور صلی  اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص نماز کو چھوڑ دے  یہاں تک کہ اس کا وقت نکل جائے ، پھر اسے قضا کر لے، (گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے، پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے) وہ  ایک حُقب جہنم میں جلے گا، اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے، اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا، اور (قیامت کا) ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہوگا۔  (اس حساب سے ایک حقب کی مقدار   دو  کروڑ اٹھاسی لاکھ برس ہوئی)‘‘۔ 

اور پھر امام غزالی رحمہ اللہ نے اس کی کچھ تشریح بھی درج الفاظ میں کی ہے : 

"يعني تركُ الصلاة إلى وقت القضاء إثمٌ، لو عاقبَ الله تعالى به يكون جزاءُه هكذا، ولكنَّ الله تعالى يتكرَّم بأن لا يُجازي به إذا تابَ عنه".​

(مشكاة الأنوار في لطائف الأخبار من المواعظ والنصايح للغزالي، الباب الخامس والعشرون في بيان عقوبة ترك الصلاة، (ص: 205)، ط: المطبعة الكريمية بلدة قزان)

۲۔  شیخ احمد بن محمد الرومی الحنفی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب"مجالس الأبرار" میں بغیر  سند وحوالہ کے صیغہ مجہول کے ساتھ  یہ روایت  ذکر فرمائی ہے: 

"لما رُوي أنه -صلّى الله عليه وسلّم- قال: مَن ترك الصلاة حتى مضى وقتُها، ثم قضى عُذِّب في النار حقبًا، والحقبُ ثمانون سنةً، والسنة ثلاث مائةٍ وستون يومًا، كلُّ يومٍ كان مقدارُ ألف سنة". 

(مجالس الأبرار، المجلس الحادي والخمسون، (ص:398)، ط: سهيل أكادمي لاهور)

۳۔  امام غزالی رحمہ اللہ سے    ابو الفداء اسماعيل حقی بن مصطفى حنفی رحمہ اللہ   نے اپنی تفسیر "روح البيان"میں دو مقامات پر  درج ذیل الفاظ کے ساتھ  یہ روایت نقل فرمائی ہے: 

"(۱)۔ قال النبي -صلّى الله عليه وسلّم-: مَن ترك صلاةً حتى مضى وقتُها عذِّب في النار حقباً، والحقبُ ثمانون سنةً، كلُّ سنة ثلاث مائةٍ وستون يوماً، كلُّ يومٍ الف سنةٍ مما تعدُّون. 

(۲)۔ و في الحديث: مَن ترك صلاة حتى مضى وقتُها، ثم قضى عذِّب فى النار حقباً، والحقبُ ثمانون سنةً، كلُّ سنة ثلاث مائةٍ وستون يوماً، كلُّ يومٍ الف سنةٍ مما تعدُّون". 

(روح البيان، (1/34) و(2/276)، ط: دار الفكر - بيروت)

۴۔حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے بھی اپنے مکتوبات میں اس روایت کو بغیر کسی سند وحوالہ کے نقل فرمایا ہے، حضرت لکھتے ہیں:

 "ودر اخبار آمدہ است کہ کسے کہ یک نماز فرض بعمد قضا کند یک حقبہ او را در دوزخ عذاب کنند"۔

(مکتوباتِ امام ربانی ، مکتوب نمبر: 266، (1/ 484)، ط:  ایچ ایم سعید کراچی) 

ترجمہ:

’’روایات میں آتا ہے کہ جس نے ایک فرض نماز جان بوجھ کر قضا کی اسے ایک حقب دوزخ میں عذاب ہوگا‘‘ ۔

۵۔ تیرہویں صدی ہجری کے شیخ سید عبد الأحد النوّری حنفی رحمہ اللہ کی  "الموعظة الحسنة" میں بھی یہ روایت  صاحبِ روح البیان کی طرح امام غزالی رحمہ اللہ کی  تشریح کے ساتھ نقل ہوئی ہے ، البتہ انہوں نے    "روح البيان" یا  "مشكاة الأنوار"  کا  حوالہ ذکر نہیں فرمایا ۔ 

(الموعظة الحسنة، ص:126و127، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)

​۶۔  شیخ الحدیث مولانا  محمد زکریا صاحب نوّراللہ مرقدہ نے اس روایت کو اپنی کتاب ’’فضائل ِاعمال ‘‘ کے رسالہ ’’فضائل ِنماز‘‘ میں  شیخ احمد بن محمد الرومی حنفی  رحمہ اللہ  کی کتاب   "مجالس الأبرار" کے حوالہ سے نقل فرما کر لکھا ہے :

"کذا في مجالس الأبرار".( یعنی یہ روايت مجالس الابرار سے نقل کی گئی ہے) ۔

اور اس کے بعد  شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے کچھ توضیحی کلمات بھی درج فرمائے ہیں ،  ملاحظہ فرمائیے:

"قلتُ: لم أجدْه  فيما عندي مِن كتب الحديث، إلاّ أنّ مجالس الأبرار مدحه شيخُ مشايخنا الشاه عبد العزيز الدهلويُّ -رحمه الله-". 

ترجمہ:

’’ میں کہتا ہوں :میرے پاس جو حدیث  کی کتب موجود ہیں،  ان  میں مجھے یہ  حدیث  نہیں مل سکی، البتہ اتناضرور ہے کہ ہمارے شیخ المشائخ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’مجالس الابرار‘‘ نامی کتاب  کی تعریف فرمائی ہے‘‘۔

(فضائلِ اعمال، رسالہ: فضائل   ِنماز، بابِ اوّل، (۳۳۰) ،ط:کتب خانہ فیضی،  لاہور)

یعنی حضرت  شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے کتبِ احادیث میں روایت نہ ملنے کے باوجود اپنے شیخ المشائخ  کی جانب سے کتاب کی تعریف کرنے کی بنیاد پر روایت کو اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے، کتاب کے بارے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تعریفی کلمات میں صاحبِ مجالس الابرار کے ورع، دینداری اور علوم شریعت میں ان کی مہارت ذکر کی گئی  ہے،جس پر اعتماد کرتے ہوئے شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے روایت کو اُن ہی کے حوالہ سے ذکرکرنے کو مناسب جانا ہے ، شاہ صاحب رحمہ اللہ کے تعریفی کلمات ملاحظہ فرمائیے:  

"كتابُ "مجالس الأبرار في علم الوعظ و النصيحة" يتضمّن فوائدَ كثيرةً مِن باب أسرار الشرائع و مِن أبواب الفقه و مِن أبواب السلوك و مِن أبواب رد البِدع و العادات الشنِيعة، لا علمَ لنا بحال مصنًفه إلاً ما يكشف عنه هذا التصنيف مِن تديِّنه و تورُّعه و تفنُّنه في العلوم الشرعية".

ترجمہ:

’’کتاب ’’مجالس الابرار‘‘ علمِ وعظ ونصیحت میں،  اسرارِ شریعت،  وابوابِ فقہ،  اور رد ِبدعات وعاداتِ شنیعہ کے ابواب میں فوائدِ کثیرہ پر مشتمل ہے، ہمیں اس کے مصنف کے بارے اس سے زیادہ  حال معلوم نہیں ہوسکا جتنا کہ اس تصنیف سے ظاہر ہوتا ہے، وہ یہ کہ اس کے مصنف ایک عالمِ متدین، متورع اور علومِ شرعیہ کے فنونِ مختلفہ پر حاوی تھے‘‘۔

(کما ذکرہ الشیخ محمد عبد المجید في خاتمة الطبع، وهكذا ذكره إلياس سركيس في معجم المطبوعات العربية: (1/388) نقلًا عن مقدمة مجالس الأبرار للشيخ إرشاد الحق الأثري، (ص:4)، ط: سهيل أكادمي، لاهور)

واضح رہے کہ شیخ احمد بن محمد الرومی الحنفی رحمہ اللہ   کی ’’مجالس الابرار ‘‘ پر   محض ہمارے اکابر کےہاں ہی   اعتماد نہیں تھا ، بلکہ کبارعلمائےا  ہلِ حدیث  (مثلاً: محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ،نواب صدیق حسن خان  رحمہ اللہ، محدث بشیر سہسوانی رحمہ اللہ وغیرہ ) نے بھی اس  کتاب پر  اعتماد کیا  اور اس سے استفادہ  کیا ہے، معروف اہلِ حدیث عالم مولانا ارشاد الحق اثری  حفظہ اللہ نے اپنی تحقیق وتعلیق کے ساتھ ’’مجالس الابرار‘‘ کے  طبع شدہ نسخہ کے مقدمہ میں اس کا   وضاحت کے ساتھ ذکر فرما یا ہے، وہ فرماتے ہیں : 

"وکذا اعتمدَ عليه واستفادَ منه الشيخ الإمام المحدّث شمس الحق عظيم آبادي في العون المعبود (4/180)، وكذا اعتمدَ عليه واستفادَ منه ترجمان السنة الشيخ الإمام صديق حسن خان في يقظة أولى الاعتبار (ص: 191، 203)، وكذا الشيخ المحدّث الإمام محمد بشير السهسواني في صيانة الإنسان عن وسوسة الشيح دحلان (ص:  230) إلا أنّه سماه: مُلّا سعد الرومي، والله أعلم"

(مقدمة مجالس الأبرار للشيخ إرشاد الحق الأثري، (ص:4)، ط: سهيل أكادمي لاهور)

 مذکورہ تفصیل کے بعد عرض ہے کہ یہ روایت مندرجہ بالا کتابوں میں بغیر کسی سندکے مروی ہے، چوں کہ سند ملی نہیں، اس لیے اس کی تحقیق بھی ممکن نہیں،  نیز   ذخیرہ احادیث   میں اس روایت کی  ایسی مؤیدات بھی  نہیں ملیں کہ جن  کی بنیاد پر روایت کے معنی کو درست قرار دیا  جاسکے، بعض اہلِ علم نے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی جانب سے اس روایت کے وضاحتی کلمات میں"تفسير ابن كثير"سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد  نقل فرمایا ہے :

"عن ابن عباسٍ-رضي الله عنهما- عن النبي صلّی اللہ علیه وسلّم قال: إنّ في جهنم لوادیًا تستعیذُ جهنّم مِن ذلك الوادي في كلِّ يومٍ أربع مائة مرّة، أُعدّ ذلك الوادي للمرائین مِن أمّة محمّد صلّی الله علیه وسلّم".

ترجمہ:

’’جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم ہرروز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے، جو امتِ محمدیہ کے ریاکاروں کے لیے تیار کی گئی ہے ‘‘۔

اوراس کے بعد"قرة العيون" سے  حضرت ابن عباس رضی اللہ کا یہ اثر  نقل کیا ہے :

"وهو مسکنُ مَن یؤخّر الصلاةَ عن وقتها".

 اور ان دونوں روایتوں کو   مذکورہ (دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال آگ میں جلنے کی) روایت کا مؤید  قرار دیا ہے ، لیکن بظاہر یہ دونوں روایتیں مؤید نہیں بن سکتیں ، کیوں کہ ان  دونوں میں ’’ایک نماز چھوڑنے پر دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس جہنم میں جلنے‘‘ کا ذکر  نہیں ہے، بلکہ  اتنا ذکر ہے کہ  نماز کو مؤخر یعنی قضا کرنے والے کا  ٹھکانہ جہنم کی ایسی وادی ہے، جس سے جہنم خوددن میں چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے ۔ 

 خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت کی معتمد کتبِ حدیث میں  کوئی سند  نہیں ملتی ، لہذا جب تک کوئی معتبر سند نہ ملے، اس  روایت کو نبی علیہ السلام سے منسوب کرکے بیان کرنے سے احتراز لازم ہے۔

آٹھویں حدیث :’’مومن مسجد میں ایسے جیسے مچھلی پانی میں،اور منافق ایسے جیسے پرندہ پنجرے میں‘‘۔

مذکورہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے توصراحتاًثابت نہیں ہیں،البتہ  تابعین میں سے حضرت مالک بن دینار اورحضرت نزال بن سبرہ رحمہما اللہ سے اس  سے ملتے جلتے الفاظ میں  ان کےا قوال سے   ثابت ہیں۔چنانچہ علامہ  عجلونی  رحمہ اللہ  "کشف الخفاء ومزيل الألباس" میں لکھتے ہیں:

"المؤمنُ في المسجد كالسَّمك في الماء، والمنافقُ في المسجد كالطَّير في القفص".لم أعرفْه حديثاً، وإنِ اشتهر بِذلك، ويُشبه أنْ يكون مِن كلام مالك بنِ دينار، فقد نقل المناويُّ عنه أنّه قال: "المنافقون في المسجد كالعصافير في القفص".

(كشف الخفاء، حرف الميم، 2/355، رقم:2689، ط:المكتبة العصرية)

ترجمہ:

’’مومن مسجد میں ایسے ہوتا ہے جیسے مجھلی پانی میں، اور منافق مسجد میں ایسے ہوتا ہے جیسے پرندہ پنجرے میں‘‘۔میں ان الفاظ کو حدیث کے طورپر نہیں جان سکا،اگر چہ یہ حدیث کے طور پر مشہور ہیں۔یہ الفاظ(تابعین میں سے) حضرت مالک بن دیناررحمہ اللہ  کے قول سے ملتے جلتے ہیں، علامہ مناوی رحمہ اللہ نے ان سے نقل کیا ہے  کہ وہ فرماتے ہیں:’’منافقین مسجد ایسے ہوتے ہیں جیسے چڑیا پنجرے میں ‘‘۔

فقیہ ابو الليث سمرقندی رحمہ اللہ " تنبيه الغافلین بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين"میں لکھتے ہیں:

"قال النزّال بنُ سبرة: المنافقُ في المسجد كالطَّير في القفص".

(تنبيه الغافلين، باب حرمة المسجد، ص: 303، ط: دار ابن كثير- دمشق)

ترجمہ:

’’(کبارتابعین میں سے)حضرت نزال بن سبره رحمه الله فرماتے ہيں :منافق كی مثال مسجد ميں ايسی ہے جيسے پرنده پنجرے  ميں‘‘۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں، اس لیے ان الفاظ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنےسے احتراز کیاجائے۔البتہ حضرت مالک بن دینار اور حضرت نزال بن سبرہ رحمہما اللہ سے اس سے ملتے جلتے اقوال منقول ہیں، اس لیے حضرت مالک بن دینار اورحضرت نزال بن سبرہ رحمہماا اللہ  کے الفا ظ میں ان کے اقوال  کی حیثیت سے بیان کیا جاسکتا ہے۔

۱۔کتاب’’غیر معتبر  روایات کافنی جائزہ‘‘  میں زبان زد عام   احادیث  کی تحقیق  کی گئی ہے،مؤلف کتاب کے مقدمہ میں اپنا طرزِ تحقیق ذکرکرتے ہوئے  رقم طراز ہیں:

’’ہم نے اپنی جستجو کے مطابق زیرِ بحث روایت  کے مصادر ومراجع ذکر کیے ہیں،اور روایت کا فنی حکم انہی طرق اور ان کے بارے میں ائمہ حدیث کے کلام کو سامنے رکھ  کر قائم کیا ہے،لہذا اگر کوئی معتبر طریق ہمیں، یاکسی بھی فرد کو بھی  مل جائے تو وہ اس تحقیق کے لیےہرگز مضر نہیں،البتہ متن ِحدیث کا حکم  بلاشبہ ایسی صورت میں بدل جاتا ہے، احبابِ فن اس  سے بخوبی واقف ہیں کہ محدثین کرام کا کسی روایت پر فنی حکم لگانا،ان کی ملحوظہ روایات کی روشنی میں ہوتا ہے ، اس میں اس بات کا احتمال بہر حال باقی رہتا ہے کہ اس ساقط الاعتبار روایت کا کوئی معتبر طریق مل جائے،چنانچہ کسی معتبر طریق ملنے کے بعد اب متنِ حدیث کا حکم اس معتبر سند کی حیثیت سے بدل سکتا ہے ، لیکن یہ واضح رہے کہ کسی سند کا معتبر ،یاغیر معتبر ہونا اصول ِ حدیث کی روشنی میں ہی ہوسکتا ہے ، اس لیے کسی ممکنہ معتبر سند کا محض تصور،یاکسی غیر معتبر سند کا موجود ہونا،ان تحقیقات میں ذکرکردہ فنی حکم کے معارض نہیں ہوسکتا۔

یہ بھی واضح رہے کہ ہم نے اپنی جستجو کے مطابق تحقیقاتِ سلف کو جمع کرکے نتائج نقل کیے ہیں،قارئینِ کرام سے درخواست ہے کہ آپ فنِ حدیث کے مطابق اسے خوب پرکھیں،اگر آپ کے نزدیک ان نتائج کے علاوہ کوئی دوسرا حکم قرینِ قیاس ہے ، تو اس بارے میں احقر کو مطلع فرمائیں ، آپ کا فنی تبصرہ ماہرینِ فن کے نزدیک راجح ہونے کی صورت میں احقر کو رجوع سے ہرگز تامل نہیں ہوگا، اور احتیاج کے اظہار کے ساتھ آپ کی اصلاحات پر ممنون رہوں گا‘‘۔

(غیر معتبر  روایات کا فنی جائزہ،مقدمہ ،حصہ اول،  ص:۳۱۔۳۲،ط:زمزم پبلشرز)

۲۔محدثین کرام رحمہم اللہ  موضوع ومن گھڑت ،معتبروغیر معتبر زبان زد عام روایات کے بارے میں اس طرح احکام بیان کرتے رہےہیں،  چنانچہ علامہ  تاج الدين   سبکی، علامہ  بدرالدين  زركشی،  حافظ ابن القیم الجوزیہ،حافظ  ذہبی، علامہ ابن الجوزی، حافظ ابنِ عرّاق كنانی، علامہ محمد بن علی شوکانی،حافظ ابنِ حجر، حافظ   سخاوی، حافظ زیلعی، حافظ ابنِ کثیر ،  حافظ جلال الدین سیوطی،   ملا علی قاری، علامہ قاوقجی،  علامہ عجلونی  رحمہم اللہ وغیرہ نے اپنی مختلف تالیفات میں  اس نوعیت کی روایات پر کلام کرکے ان  کی حقیقت واضح کی  ہے۔  ہمارے برصغیر  کے ابل ِ علم  نے بھی اس میدان میں  خدمات سر انجام دی ہیں، چنانچہ  امام رضی الدین حسن بن محمد   صغانی،  علامہ محمد بن طاہر پٹنی ،علامہ  سید محمد بن محمد مرتضی زَبیدی،علامہ محمد عبد الحی لکھنوی،  حضرت مولانارشید احمد گنگوہی ،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ وغیرہ  کے  نام اس سلسلے میں نمایاں ہیں۔ہمارے فتاوی کی کتب میں  بھی  ایک مستقل باب  میں احادیث کے متعلق سوالات کے جوابات مذکورہوتے ہیں۔خود ہماری جامعہ کی  ویب سائٹ پر بھی احادیث سے متعلق  جوابات دیےجاتے ہیں۔

۳۔ علامہ عبد العزیر فرہاروی رحمہ اللہ "كوثر النبي وزلال حوضه الروي"  میں غیر معتبرروایات پر مشتمل بعض کتبِ تفسیر کاتذکرہ کرتے ہوئے ان میں ساقط الاعتبار روایات کے اسباب ذکر کرتے ہیں: 

"والسّببُ أنّه قلّ اشتغالُهم بِصناعة الحديث، وأنّهم اعتمدُوا على المشهور في الألسِنة من تحسين الظنّ بالمسلم، وأنّهم انخدعُوا بالكتب الغير المُنقَّحة الحاوية للرّطب واليابس، وأنّه لم يبلُغهم وعيدُ التهاون في رواية الحديث، وأيضاً  منهم من يعتمدُ على كلِّ ما أُسنِد من غير قدحٍ وتعديلٍ في الرّواة". 

(كوثر النبي وزلال حوضه الروي، ص:108)

ترجمہ:

’’(اِن کتب میں رطب ویابس  احادیث کی ) وجہ یہ  ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین، فنِ حدیث سے اشتعال کم رکھتے ہیں،اور مسلمان سے حسنِ ظن  رکھتے ہوئے ،زبان زد  عام روایتوں پر بھروسہ کرلیتے ہیں(حالاں کہ ایسا اعتماد صرف ماہرِفن پر ہی کیا جاسکتا ہے، نہ کہ حدیث  میں کم اشتغال رکھنے والے پر)اور یہ مصنفین رطب ویابس پر مشتمل ،غیر منقح کتابوں سے دھوکے میں پڑجاتے ہیں،اور(ان کے بارے میں یہی حسنِ ظن ہے کہ)ان مصنفین کو حدیث  نقل کرنے میں تہاون(معمولی سمجھنے) کی وعید نہیں پہنچی ہوگی،اور بعض مصنفین، سند کے راویوں کی جرح وتعدیل دیکھے بغیر ،ہرسند والی روایت پر اعتماد کرلیتے ہیں‘‘۔

علامہ عبد العزیز فرہاروی رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت کی روشنی میں غیر معتبر   روایات  کے رائج ہونے کے درج ذیل اسباب معلوم ہوتے ہیں:

۱۔فنِ حدیث میں اشتغال کی کمی۲۔محض حسنِ ظن کی بنا پر روایات کے سلسلے میں اعتماد ۳۔روایتِ حدیث میں پوری احتیاط سے کام نہ لینے پر وعید سے ناآشنائی۔ ۴-تحقیق کا فقدان۔

ہردور میں واعظین اور عوام الناس   ایسی روایات بیان کرتے رہے ہیں اور ماہرین اہل ِ فن   ایسی روایات  کی تحقیق کرکےان کی حیثیت واضح  کرتے رہے ہیں،مذکورہ کتاب بھی اسی نوعیت  کا ایک کام ہے، یہ کام معتبراہلِ علم و فن کی زیرِنگرانی    کیاگیا ہے،کتاب   مجموعی طور پر مفید ہے، البتہ  بعض احادیث کی تحقیق کے نتائج    سے اختلاف کیاجاسکتا ہے،اور اس نوعیت کے کاموں میں اس کی گنجائش ہوتی ہے،مؤلف کو بھی  یہ دعوی نہیں کہ  ان  کاکام ہرقسم کی غلطیوں سے پاک ہے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100410

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں