بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو سگریٹ ہبہ کرنے کا حکم


سوال

 ایک شخص کا رشتہ دار بھائی وغیرہ سعودی عرب میں ہے ، اور وہ سگریٹ پیتا ہے،  جب کوئی شخص پاکستان سے جاتا ہے، تو وہ اپنے بھائی سے کہتا ہے کہ: میرے لیے سگریٹ بھیجو ؛ کیوں کہ وہاں سگریٹ بہت مہنگے ہیں ، تو کیا یہ بھیجنے والا اس پر گناہ گار ہوگا جب وہ اسے پیتا ہے؟

جواب

سگریٹ نوشی فی نفسہ مباح ہے، تاہم کھانے پینے کی طرح مباح نہیں ہے، یہ منہ میں بدبو کا باعث ہونے کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہے؛  لہذا  مذکورہ آدمی اپنے بھائی کے لیے سگریٹ بھیجنے کی وجہ سے گناہ گار تو نہیں ہوگا،البتہ یہ اچھا کام بھی نہیں ہو گا اس لیے مقدس سرزمین میں اچھی چیز بھیجنے کی کوشش کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" وألف في حله أيضا سيدنا العارف عبد الغني النابلسي رسالة سماها الصلح بين الاخوان في إباحة شرب الدخان وتعرض له في كثير من تآليفه الحسان، وأقام الطامة الكبرى على القائل بالحرمة أو بالكراهة؛ فإنهما حكمان شرعيان لا بد لهما من دليل، ولا دليل على ذلك، فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره، بل ثبت له منافع، فهو داخل تحت قاعدة الٲصل في الاشياء الاباحة، وأن فرض إضراره للبعض لا يلزم منه تحريمه على كل أحد، فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة، وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي، وليس الاحتياط في الافتراء على الله تعالى بإثبا ت الحرمة أو الكراهة اللذين لا بد لهما من دليل، بل في القول بالاباحة التي هي الاصل.

وقد توقف النبي صلى الله عليه وآله مع أنه هو المشرع في تحريم الخمر أم الخبائث حتى نزل عليه النص القطعي، فالذي ينبغي للانسان إذا سئل عنه سواء كان ممن يتعاطاه أو لا كهذا العبد الضعيف وجميع من في بيته أن يقول هو مباح، لكن رائحته تستكرها الطباع، فهو مكروه طبعا لاشرعا إلى آخر ما أطال به رحمه الله تعالى".

(حاشية ابن عابدين علي الدر المختار: كتاب الأشربة 6/ 459، ط: سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

’’(سوال) میں نے ایک دکان فی الحال کھولی ہے جس میں متفرق اشیاء ہیں، ارادہ ہے کہ سگریٹ اور پینے کا تمباکو بھی رکھ لوں یہ ناجائز تو نہیں ہوگا ؟

( جواب ۱۶۳) سگریٹ اور تمباکو کی تجارت جائز ہے او ر اس کا نفع استعمال میں لانا حلال ہے ۔محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘‘۔

(کفایت المفتی:كتاب الحظر والإباحة،آٹھواں باب تمباکو کا استعمال  9/ 148  ط:دار الاشاعت كراتشي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں