بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کا یوم وفات منانےکا حکم


سوال

 کہا جاتا ہے کہ اسلام میں دن منانے کا تصور نہیں ہے تو پوچھنا یہ ہے کہ ہمارے اکابرین کا ہر سال یوم وفات مختلف ناموں سے منایا جاتا ہے جس میں ان کے کارنامے ذکر کیے جاتے ہیں تو اس کاکیا حکم ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی شخص کی پیدائش والے دن یا وفات والے دن کو "سالگرہ  یایوم پیدائش،برسی یا یوم وفات" کے ناموں سے منانا اور مختلف محافل کا انعقاد کرنا غیر اسلامی اور غیر شرعی  طریقہ ہے اور اغیار کی طرف سے آئی ہوئی تہذیبوں کی نقالی اور اتباع ہے، مذکورہ دونوں رسموں کاشریعت مقدسہ میں کوئی ثبوت نہیں اور اس طرح رسموں کا التزام کرنابدعت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"جس شخص نے کسی قوم کے ساتھ(صورتا) بھی مشابہت اختیار کی وہ اسی قوم میں سے ہوجائے گا"۔

بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا ‌يعقوب: حدثنا ‌إبراهيم بن سعد، عن ‌أبيه، عن ‌القاسم بن محمد، عن ‌عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد» رواه عبد الله بن جعفر المخرمي، وعبد الواحد بن أبي عون، عن سعد بن إبراهيم".

[كتاب الصلح،باب إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود،ج:3،ص:184،ط:السلطانية]

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.

(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب."

[کتاب اللباس،الفصل الثانی،ج:7،ص:2782،ط:دار الفكر]

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

"سوال:ہر سال اپنے پیر یا استاد کی برسی کرے یعنی جب سال بھر مرے ہوئے ہوجاوے تو ایک دن مقرر کرے اور روز کا نام عرس شریف رکھے اور اس دن کھاناپکاکر تقسیم کرادےمساکین کو ۔۔۔ہماری شریعت میں جائز ہے یا ناجائز؟

جواب:کھانا تاریخ معین پر کھلانا کہ پس وپیش نہ ہو بدعت ہے ۔"

(کتاب العلم، ص:۱۷۳،ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام)

کفایت المفتی میں ہے:

"سالگرہ منانا کوئی شرعی تقریب نہیں ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:۹، ص:۸۴،ط:دار الاشاعت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"رسم سالگرہ یہ خالص غیر اقوام کا طریقہ اور انہی کی رسم ہے، مسلمانوں پر لازم ہے کہ مذکورہ طریقہ سے اجتناب کریں ورنہ اس کی نحوست سے ایمان خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔"

(کتاب الایمان والعقائد، ج:۱، ص:۱۹۲، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101774

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں