میرے والدین کا انتقال ہوگیا ہے،والد کا انتقال 94 میں ہوااور والدہ کا انتقال 2014 میں ہوا،ہم پانچ بھائی اور چار بہنیں ہیں،والد کے انتقال کے وقت سب حیات تھے او ر والدہ کے انتقال کے وقت دو بھائیوں اور ایک بہن کا انتقال ہوگیا تھا، والد کے انتقال کے بعد والدہ کے کہنے پر ہمارے سب سے بڑے بھائی جوکہ علیحدہ رہتے تھے،والد کے انتقال کے بعد بڑے بھائی کے حصہ مانگنے پر اور والدہ کے کہنے پر ہمارے سب سے بڑے بھائی جو کہ علیحدہ رہتے تھے،ان کو والد کی جائیداد میں سے اور والدہ نے اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد میں سے بھی حصہ گواہان کی موجودگی میں شریعت کے مطابق (فتوی) دیا گیا،بلکہ زیادہ دیا اور والدہ نے میرے بھائی کو اس حصہ دیتے وقت کہاتھاکہ میرے مرنے کے بعد میری جائیداد میں آپ کا کوئی حصہ نہیں ہوگا،ہم تین بھائی اور میں ایک ساتھ رہتے تھے،ہماراپان کا کاروبار تھا،پھر 2004 میں ایک اور بھائی کا انتقال ہوگیا،اب پو چھنایہ ہے کہ:
ہم سب بھائی بہن والدہ کی جائیداد میں سے اپنا حصہ لے رہے ہیں،تو کیا بڑے بھائی کا والدہ کی جائیدا دمیں سے حصہ ہوگا یا نہیں؟ کہ جس بڑےبھائی کو والدہ نے اپنی زندگی میں ان کے کہنے پر حصہ دے دیا تھااور یہ بھی کہاتھا کہ میرے مرنے کے بعد میری جائیداد میں سے آپ کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً سائلہ کے والد ہ نے اپنی زندگی میں اپني جائيداد ميں سے بڑے بیٹے کو کوئی حصہ یہ کہہ کر دیاتھاکہ میری وفات کے بعد ان کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا اور انہوں نے یہ بات قبول بھی کر لی تھی تو معاہدے کی رو سےاس بیٹے کاوالدہ کی جائیداد میں اب کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال القهستاني: واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه كما في الجواهر اهـ"
(كتاب الوصايا، ج: 6، ص: 655، ط: دار الفکر بیروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603103149
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن