بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی وارث کا دوسرے وارث کو میراث سے محروم کرنا جائز نہیں


سوال

  ایک شخص کا انتقال ہوا، اس کے ورثاء میں پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں، ان بھائیوں میں سے تین بھائی سرکاری ملازم ہیں، تو کیا ان کی ملازمت کی تنخواہ اور بعد میں ملنے والی پینشن بھی میت کی میراث میں شمار ہوگی ؟ ان کے باقی بھائیوں کا کہنا ہے کہ ہم نے آپ کوتعلیم کے لیے فارغ کیا تھا اس لیے آپ کی ملازمت بھی میراث میں شمار ہوگی، ان تین بھائیوں میں سے دو بھائی والد کی حیات میں ملازم بنے تھے جب کہ تیسرا بھائی والد کے انتقال کے بعد، تو کیا ان کا یہ کہنا از روئے شریعت درست ہے؟ ان تین بھائیوں میں سے ایک بھائی کو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ چونکہ ملازم ہیں تو  آپ کو میراث میں حصہ نہیں دیں گے۔یاد رہے کہ باقی دو بھائیوں نے اپنے والد کی میراث کو بڑھایا ہے،لیکن یہ تینوں بھائی بھی ان کے ساتھ ہاتھ بٹاتے تھے۔

جواب

        واضح رہے کہ والد کے انتقال کے بعد ان کی میراث میں ان کی تمام اولاد اپنے اپنے شرعی حصے کے بقدر شریک ہوتی ہے، خواہ وہ والد کے ساتھ ان کی زندگی میں کاروبار میں معاون ہوں  یانہ ہوں ، اور کسی ایک وارث کا دوسرے  وارث کو میراث  سے محروم کرنا جائز نہیں ہے،اور کسی وارث کو میراث سے محروم کرنا "اکل بالباطل "کے زمرے میں آتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ  [البقرة: 188]

ترجمہ:"اور آپس میں ایک دوسرے کے مال نا حق مت کھاؤ"۔(بیان القرآن) 

لہذا صورت مسئولہ میں بعض بھائیوں کا ایک بھائی کو اس کی ملازمت کی بنیاد پر  میراث سے محروم کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ ہر وارث کو اس کا شرعی حق دینا ضروری ہے۔جو تین بھائی سرکاری ملازم ہیں ان کو ملنے والی تنخواہیں اور بعد میں ملنے والی پینشنیں انکی ذاتی ملکیت شمار ہوں گی اور  وہ تنخواہیں اور پینشنیں میت کے ترکہ کا حصہ نہیں بنیں گی۔

 جن بھائیوں نے  دوسرے بھائیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے فارغ کیا تھا وہ ان کی طرف سے تبرع  اور احسان ہے، اس احسان کے عوض وہ بھائیوں کی تنخواہ اور پینشن میں شرعاً شریک نہیں بنیں گے، لہٰذا ان کا بھائیوں کی تنخواہ اور پینشن میں حصہ طلب کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔

مسلم شریف میں ہے:

"اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ ‌الظُّلْمَ ‌ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ."

(ج:4، ص:1996، ط:دارإحياء التراث)

وفيه أيضاّ:

"لَتُؤَدُّنَّ ‌الْحُقُوقَ ‌إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ، مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ."

(ج:4، ص:1997، ط:دارإحياء التراث)

رد المحتار میں ہے:

"والثالث إما اختياري وهو الوصية أو اضطراري وهو الميراث."

(کتاب الفرائض، ج:6، ص:758، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"لا ‌يجوز ‌لأحد ‌من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي»."

(کتاب الحدود، ج:5، ص:44، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308100044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں