بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی عذر کی وجہ سے غسل میں تاخیرکرنے کا حکم


سوال

اگر کوئی ہسپتال مریض کے ساتھ ہو اور احتلام کی وجہ سے غسل واجب ہوجائے تو اس کےلیے کیا حکم ہے؟ اگر دن کو کسی ٹائم غسل کر لیا جائے تو کیا اس کی گنجائش ہے؟

جواب

غسل فرض ہوجانے کے بعد جس قدر جلدی غسل کرلے بہتر ہے، تاہم اگر کسی وجہ سے فرض غسل میں تاخیرکرنا پڑجائے تو اس کی بھی گنجائش ہے،ایسی صورت میں اس وقت تک کے لیے  وضو کرلے، بشرطیکہ غسل میں تاخیر کی صورت میں نماز قضا نہ ہو؛ کیوں کہ غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ  کوئی  نماز قضا ہوجائے سخت  گناہ کا باعث ہے۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"الجنب إذا أخر الاغتسال إلى وقت الصلاة لا يأثم. كذا في المحيط."

(الفصل الأول فیما یجوز به التوضؤ: ج: 1، ص: 16، ط: حقانیة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"ولا جنب أي الذي اعتاد ترك الغسل تهاونا حتى يمر عليه وقت صلاة فإنه مستخف بالشرع، لا أي جنب كان فإنه ثبت أن النبي صلی الله علیه وسلم كان يطوف على نسائه بغسل واحد، وكان ينام بالليل وهو جنب إلى ما بعد الفجر حتى في رمضان، ولا جنب من زنا؛ إذ المراد إلا أن يتوضأ كما سيأتي في الحديث."

وفیه أیضاً:

"والجنب إلا أن يتوضأ أراد به الوضوء المتعارف كما مر وهذا تهديد وزجر شديد عن تأخير الغسل كيلا يعتاد."

(باب مخالطة الجنب: ج: 2، ص: 383-384، ط: المشکاة الإسلامیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں