بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

ایزی لوڈ پر اضافی رقم لینے کا حکم


سوال

اگر کوئی بندہ لوڈکروانا (ایزی لوڈ)  چاہے اور وہ کسی سے 200 روپے کا ایزی لوڈ کروائے اور ایزی لوڈ کرنے والا 200 کے بجائے 210 یا 220 روپے وصول کرے تو کیا یہ  10 یا 20 روپے لینا شرعا جائز ہے یا نہیں؟اگر ایزی لوڈ کرنے والا یہ حیلہ کرے کہ میں 10 یا 20ر وپے جو زیادہ لیتا ہوں ، یہ میں وقت کے عوض لیتا ہوں، کیوں کہ اس پر میرا وقت لگتا ہے، حالاں کہ دکانوں میں عام رواج یہ نہیں کہ کوئی 200  کے ایزی لوڈ پر 210 یا 220 روپے لے، تو کیا یہ حیلہ کرنا جائز ہے؟

نوٹ:واضح رہے کہ لوڈ کرنے والا اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے لوڈ کرتا ہے، یہ کمپنی  کا کوئی نمائندہ یا دکان دار نہیں ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو شخص   اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ایزی لوڈ کرکے دیتا ہو اور  نہ تو وہ کسی کمپنی کا نمائندہ ہو  نہ ہی دکان دار ہو، تب بھی  اس کے لیے 100 سو روپے کے بدلے  120 روپے وصول کرنا نا جائز ہے، کیوں کہ یہاں ایزی لوڈ کرنے والے کی طرف سے ایسی کوئی خدمت یا  عمل نہیں پایا جارہا کہ  جس کے عوض وہ اضافی رقم وصول کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل".

(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:156، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"(قوله إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: من دلني على كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء. قال في السير الكبير: قال أمير السرية: من دلنا على موضع كذا فله كذا يصح ويتعين الأجر بالدلالة فيجب الأجر".

(كتاب الإجارة، ‌‌باب فسخ الإجارة، ج:6، ص:95، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"ولا ‌يستحق المشترك الأجر حتى يعمل كالقصار ونحوه"

"(قوله حتى يعمل) ؛ لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما، فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر لا يسلم له العوض والمعقود عليه هو العمل أو أثره على ما بينا فلا بد من العمل زيلعي".

(كتاب الإجارة، ‌‌‌‌باب ضمان الأجير، ج:6، ص:64، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603102861

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں