بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی شخص کے پاس سونا رکھوایا اور وہ سونا گم ہوگیا


سوال

 میرے دوست سے  میرا کچھ سونا (آٹھ ماشے)گم ہو گیا ہے، جس وقت سونا گم ہوا ،اس وقت اس کی مالیت چوالیس ہزار روپے تھی، دوست نے واپسی کے  لیے وقت مانگا ،تو اس دوران سونے کی قیمت بڑھ گئی اور اب اسے وہی آٹھ  ماشے تقریبًا پچھتر ہزار میں مل رہے ہیں، آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ آیا گم شدہ سونے کے بدلے اتنا سونا ہی واپس لوں؟ یا گم ہونے کے وقت جو مالیت سونے کی تھی وہ مالیت واپس لوں؟  کیوں کہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ گم ہونے کے بعد سونے کی قیمت بڑھے اور اگر آپ وصول کریں تو وہ آپ کے  لیے شرعًا ٹھیک نہیں !

جواب

آپ نے اپنے دوست کو  جو سونا دیا تھا وہ کس حیثیت سے دیا تھا ؟ آیا بطور  امانت یا عاریت کے دیا تھا یا بطور قرض کے دیا تھا ؟

اگر آپ نے اپنے دوست کو سونا امانت کے طور پر دیا تھا تو اس صورت میں اگر یہ سونا آپ کے دوست کی  کوتاہی کے نتیجہ میں گم  ہوا ہے تو آپ اس کا ضمان وصول کرسکتے ہیں،ضمان یہ ہے کہ جتنا سونا آپ نے دیا تھا اتنا ہی سونا ،اسی معیار کا واپس کرے یا  باہمی رضامندی سے اس کی جو قیمت ہے وہ ادا کرے ، لیکن  اگرآپ کے دوست نے پوری ذمہ داری نبہانے کی کوشش کی تھی اور کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی تھی، اس کے باوجود  سونا گم ہو گیا توآپ کا دوست  ضامن نہیں ہوگا، اور اس صورت میں آپ کو اس کے تاوان کے مطالبے کا حق نہیں ہوگا، ہاں اگر وہ بطیبِ خاطر خود دے دے تو آپ لے سکتے ہیں۔  

 اور اگر آپ نے سونا بطور قرض کے دیا تھا  تو اس کاحکم یہ ہےکہ  جتنے کیرٹ کا سونا اور جتنا وزن قرض میں دیا ہو، واپسی کے وقت اتنا ہی وزن اور اتنے ہی کیرٹ کا سونا واپس کرنا ضروری ہوگا، واپس لیتے وقت کمی یا بیشی کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر  واپسی میں سونا نہیں دیا جارہا، بلکہ سونا کے علاوہ کوئی اور چیز دی جارہی ہے  تو واپسی کے دن اتنے ہی وزن کے اسی معیار کے سونے کی بازاری قیمت کے مطابق باہمی رضامندی سے کسی اور جنس سے قرض ادا کیا جائے گا ۔

اور اگر آپ نے یہ سونا بطور عاریت کے دیا تھا اور عاریت پر دینے سے مقصود  یہ تھا کہ اس کوخرچ کرکے اپنی ضروریات کو پورا کرے ،تو اس کی حیثیت قرض کی ہوگی اور اس پر قرض والے احکام جاری ہوں گے ،اور اگر عاریت پر دینے سے مقصود اس کا ایسا استعمال تھا جس میں اس کا عین ختم نہ ہو ،عین باقی رہتے ہوئے اس سے کوئی نفع حاصل کیا جائے ،مثلاً اس کو پہنا جائے یا دکان میں زینت وغیرہ کے لیے رکھاجائے ،اس صورت میں اس کی حیثیت عاریت اور امانت کی ہوگی ،اور  مذکورہ مسئلہ میں اس پر امانت والے احکام جاری ہوں گے ۔

 شرح مجلۃ الأحکام میں ہے:

"الوديعة أمانة في يد المودَع، فإذا هلكت بلا تعد منه و بدون صنعه و تقصيره في الحفظ لا يضمن، ولكن إذا كان الإيداع بأجرة فهلكت أو ضاعت بسبب يمكن التحرز عنه لزم المستودع ضمانها". ( أحكام الوديعة، رقم المادة: ٧٧٧)

فتاوی شامی میں ہے:

"فيصح استقراض الدراهم والدنانير، وكذا كل ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً". (رد المحتار علی الدرالمختار، ج:5، ص:161، ط:ایچ ایم سعید) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وما غلب فضته وذهبه فضة وذهب)  ... و) كذا (لايصح الاستقراض بها إلا وزناً) كما مر في بابه". (رد المحتار علی الدرالمختار، ج:5، ص:265، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے : 

 قال الحاكم الشهيد في الكافي: وعارية الدراهم والدنانير والفلوس قرض، وكذلك كل ما يكال أو يوزن أو يعد عدا مثل الجوز والبيض، وكذلك الأقطان والصوف والإبريسم والمسك والكافور وسائر متاع المعطر والصيادلة التي لا تقع الإجارة على منافعها قرض، وهذا إذا أطلق العارية، فأما إذا بين الجهة كما إذا استعار الدراهم أو الدنانير ليعاير بها ميزانا أو يزين بها دكانا أو يتجمل بها أو غير ذلك مما لا ينقلب به عينها لا يكون قرضا بل يكون عارية تملك بها المنفعة المسماة دون غيرها ولا يجوز له الانتفاع بها على وجه آخر غير ما سماه، كذا في غاية البيان.

إذا استعار آنية يتجمل بها أو سيفا محلى أو سكينا محلى أو منطقة مفضضة أو خاتما لم يكن شيء من هذا قرضا، هكذا في الكافي.(4/ 363ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144207201664

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں