بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی سے میل ملاپ اگر مزید تعلقات خراب ہونے کا باعث ہو تو ترک تعلق کیا جاسکتا ہے؟


سوال

ہم لوگ ایک گھر میں تین فیملیز رہتے ہیں، والدین اور میرے شوہر اور اُن کے بھائی بھابھی تو ہم دیورانی جیٹھانی آپس میں ایک دوسرے سے بالکل نہیں بولتیں، آپس میں بہت سے اختلافات کی وجہ سے، جب صلح تھی تو زیادہ مسائل تھے جب سے بول چال ختم ہوئی ہے مسائل کم ہیں تو کیا ہم آپس میں نہ بولنے کی وجہ سے گناہ گار تو نہیں؟ ہم دونوں کے بچے بھی آپس میں کھیلتے ہیں لڑتے بھی ہیں، میرا بیٹا چھوٹا ہے اُس کے بیٹے سے نیچےکھیلنے جاتا ہے اور اکثر ہی روتا ہوا آتا ہے کہ اُس نے مارا ہے، میں نے کبھی کچھ نہیں کہا کہ بچے ہیں لڑتے بھی ہیں کھیلتے بھی ہیں لیکن جب اس کا بیٹا اوپر آتا ہےلڑتا ہے تو وہ باتیں سناتی ہے نیچے سے، کئی دفعہ سن چکی ہوں جو کہ میرے لیے تکلیف دہ ہیں، اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ وہ تو ہے ہی گھٹیا انسان، ایک ہی گھر میں رہنے سےاکثر اوقات کوئی نہ کوئی لڑائی ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے میرا دل نہیں کرتا اس سے بولنے كا تو کہیں میں اُس سے نہ بولنے سے گناہ گار تو نہیں؟

جواب

واضح رہےکہ قطع تعلقی کرنے والے کے لیے احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، مسلمان سےقطع تعلق ہونےسےبچنےکی کوشش کرنی چاہیے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں دنیوی امور کی بنیاد پراپنے رشتہ داروں سے قطع تعلقی اختیار کرنا، سلام کلام بندکرنا درست نہیں ہے، ہاں اگر آپ کوواقعۃًاپنےمذکورہ رشتہ داروں کی طرف سےباربارایذاء اور نقصان پہنچاہو اورآئندہ کے لیےبھی نقصان کا قوی اندیشہ ہو ،توپھر اپنےمذکورہ رشتہ داروں کے ساتھ میل جول کو کم رکھ کران کے ساتھ تعلقات کو محدود کرسکتےہیں کہ اگر کہیں آمنا سامنا ہوجائے، تو سلام دعا پراکتفاءکیا جاسکتا ہے۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرضهذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.»

۔۔۔  قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولايجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ: قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ  خمسين يومًا. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق".

(8/ 3146،کتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، الفصل الأول، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں